کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 8
خدا خیر کرے: کیونکہ وہ دلِ صنم آشنا رکھتے ہیں ، کہیں رہیں دل ان کا دہلی میں رہتا ہے۔ وہ جتنا عرصہ کابل میں رہے اتنا عرصہ انہوں نے اس کو بھی ’’دہلی‘‘ ہی بنائے رکھا اور اب بھی یہی اندیشہ ہے کہ یہاں آکر بھی ’’ہاتھ کار کی طرف دل یار کی طرف‘‘ والی بات رہے گی۔ ان حالات میں حکمت کا فریضہ کیا ہونا چاہئے۔ سو یہ وہی جانے، لیکن اتنا ہم ضرور جانتے ہیں کہ اس کا عشرِ عشیر بھی اگر کسی اور اسلامی تحریک کے رہنما سے سرزد ہو جاتا تو ’’تختہ دار‘‘ سے درے اس کے لئے اور کوئی جگہ نہ ہوتی۔ تاہم، ہم حکومت سے اتنا ضرور عرض کریں گے کہ وہ ملک کے کسی بھی گوشہ کو ’’دہلی‘‘ نہ بننے دے ورنہ ہو سکتا ہے کہ ملک کے چپہ چپہ میں خان غفار خان، جی۔ ایم۔ سید اور سردار بگتی اگنے لگ جائیں ۔ جو لوگ ملک کے غداروں کو پناہ دیتے ہیں وہ بھی غدار ہی ہوتے ہیں ۔ (۴) سرحد کے وزیر اعلیٰ مولانا مفتی محمود نے کہا ہے کہ: ’’صوبائی حکومت جہیز پر پابندی لگانے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قبیح رسم ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف ہے۔‘‘ (نوائے وقت ۱۶ مئی) مفتی صاحب کے اس ارادۂ خیر کا ہم پر زور خیر مقدم کرتے ہیں ۔ لوگ جس قدر جہیز پر زور دیتے ہیں صالح اور اہل رشتہ کی تلاش میں اتنی کاوش نہیں کرتے۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ جس خطرہ کا منہ بند کرنے کے لئے لوگ اپنا گھر لٹاتے ہیں ، وہ پھر بھی نہیں رکتا، الا ماشاء اللہ، کیونکہ لڑکی خوشگوار گھڑیوں کا ضامن قیمتی جہیز نہیں ہوتا، قیمتی لڑکا ہوتا ہے۔ یہی حال لڑکے والوں کا ہے وہ صالحہ اور با حیاء لڑکی کی تلاش کم کرتے ہیں ، مالی لحاظ سے اونچے گھر ڈھونڈتے ہیں جس کا انجام بہت کم اچھا نکلتا ہے۔ مفتی صاحب موصوف نے وزارت علیا پر فائز ہونے کے بعد صوبہ سرحد میں اُم الخبائث (شراب) کی بندش اور سرکاری زبان اردو قرار مہینے کا اعلان اور چند دیگر اصلاحی اقدامات کے عزم کا اظہار کر کے پوری قوم سے داد حاصل کی ہے۔ گو یہ چند جزوی اصلاحات ہیں اور معاشرہ کی مکمل اسلامی تطہیر اور فرد و معاشرہ کی صحیح تربیت کے وسیع کام کا انتظار ہے تاہم یہ دوسرے صوبوں کے لئے ایک اچھی مثال ہے اور مایوس کن حالات میں شمعِ امید ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہم ان کے لئے بہتر مستقبل کی دعائے خیر کرتے ہیں ۔ آمین