کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 5
تاج نہیں کانٹوں کی سیج ہے، فصل پکی نہیں ، بوئی ہے جسے خون سے ابھی سینچنا ہے، کیونکہ ترقی پذیر ملک کے لئے سخت کوش سپوت اور قوم درکار ہوتی ہے، حلوہ خور نہیں ، مگر افسوس! سیاست میں بھی ’’حلوۂ خور‘‘ پیدا ہو گئے ہیں جو محنت سے زیادہ خوش فہمیوں پر گزارا کرتے ہیں ۔ اس لئے وہ ’’طاؤس و رباب‘‘ پر تو یقین رکھتے ہیں لیکن ’شمشیر و سناں ‘‘ کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ وہ انتخابی مہم تھی جس سے اب وہ فارغ ہو چکے ہیں ۔ جہاں سوچ کا انداز یہ ہو گیا ہو، وہاں ملک و ملت کے سلسلہ میں ان سے کسی سنجیدہ محنت کی توقع کرنا عبث نہیں تو بھول ضرور ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو شمشیر و سناں اور سخت کوشی کا درس دیا جائے۔ ان کو جھوٹے وعدوں کے ذریعے ذہنی عیاشی میں مبتلا نہ کیا جائے اور سیاسی جواریوں کو چاہئے کہ وہ سیاسی ’’سٹہ بازی‘‘ کو چھوڑ کر ’’قوم اور قوموں کی امامت‘‘ کو سمجھیں ، خدا کے ہاں اس کے سلسلہ میں سخت باز پرس ہو گی اور بے عملوں کے خلاف قوم کا جو قدرتی ردِ عمل اور احتساب ہوتا ہے، وہ بھی دنیا میں ان کی تاریخ کو سیاہ کر ڈالنے کے لئے کافی ہوتا ہے، اس لئے قوم کو کھلونے دے کر بہلانے کی کوشش نہ کریں ۔ یہ چیز قومی توہین کے مترادف ہے اور قوم کا ذہین طبقہ اس کو اپنی عزت نفس کے خلاف ایک بزدلانہ ’’شبخون‘‘ تصور کرتا ہے۔