کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 46
اس کے متعلق پہلی گزارش تو یہ ہے کہ ’’من اشترط منھم الصحیح‘‘ کے ضمن میں تو صحیح ابن حبان بھی آتی ہے اور اسے آپ خود ہی مستدرک حاکم کے متقارب قرار دے چکے ہیں اور مستدرک کے مقام و مرتبہ اور محتویات سے حدیث کا ہر طالب علم واقف ہے۔
اور دوسری گزارش صحیح ابن خزیمہ کے متعلق ہے جسے آپ نے بطور مثال بیان فرمایا ہے کہ اس پر مطلقاً یہ حکم کیسے لگایا جا سکتا ہے جبکہ اس میں اور اس جیسی دیگر کتب میں ضعیف روایات بھی ہیں ، مثلاً صحیح ابن خزیمہ کی ہم تین روایات پیش کرتے ہیں :
1. قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا توضأ احدکم ثم یخرج المسجد فلا یشبکن یدیه فانه في صلاة
اس حدیث کی سند میں اختلاف ہے جس کے سبب بعض ائمہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کی سند میں راوی ابو شمامہ الحجازی مجہول الحال ہے جیسا کہ حافظ نے ’’تقریب‘‘ میں فرمایا ہے اور ’’تہذیب‘‘ میں امام دار قطنی کے حوالہ سے لکھا ہے لا یعرف یترک
2. سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن ھذہ الاية ’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰي وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّه فَصَلّٰي‘‘ قال انزلت في زكوٰة الفطر
اس کی سند میں کثیر بن عبد اللہ ہے جس کے متعلق امام منذری نے فرمایا ہے ’’والا‘‘ اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی اس حدیث کو مناکیر سے شمار کیا ہے۔
3. من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینھن بسوء عدلن له بعبادۃ اثنتٰي عشرة سنة
اس حدیث کے سلسلۂ اسناد میں عمر بن عبد اللہ بن ابی خثعم ہے جس کے متعلق امام بخاری فرماتے ہیں :
منکر الحدیث ذاھب (میزان جلد ۲۔ ص ۲۶۴)
تو حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کے مذکورہ ارشاد کو کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے جبکہ صحیح ابن خزیمہ میں ان جیسی روایات بھی ہیں ۔ منکر حدیث کی بحث میں امام ابن الصّلاح منکر اور شاذ کو مترادف قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :