کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 45
الصواب ان یتبع ویحکم علیہ بما یلیق من الحسن او الصحة او الضعف
یعنی یہ ضروری نہیں کہ امام حاکم نے جس حدیث پر صحت کا حکم لگایا ہو اور اس کے متعلق کسی دوسرے امام کی تصریح موجود نہ ہو تو وہ اگر صحیح نہیں قولا محالہ حسن ہو گی بلکہ تتبع کیا جائے گا اور اس کے حسبِ حال صحت حسن یا ضعف کا حکم لگایا جائے گا۔ قاضی ابن جماعۃ کے اس تعاقب کو علامہ سخاوی رحمہ اللہ و انصاری رحمہ اللہ نے بھی ذِکر فرمایا ہے اور علامہ عراقی نے ’’النکت‘‘ میں اسے ذِکر کر کے صحیح قرار دیا ہے۔ [1]
اور اس مذکورہ عبارت کے متصل ہی حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ویقاربه فی حکمه صحیح ابی حاتم بن حبان البستی رحمہ اللہ [2]
لیکن آپ کا صحیح ابن حبان کو مستدرک حاکم کے ہم پلہ قرار دینا بھی صحیح نہیں کیونکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کا حدیث میں امام حاکم کی نسبت مقام بلند ہے۔ چنانچہ علامہ عراقی، امام حازمی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ابن حبان امکن فی الحدیث من الحاکم [3]
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قیل ما ذکر من تساھل ابن حبان لیس بصحیح غایته ان یسمی الحسن صحیحا فان کانت نسبته الی التساھل باعتبار وجدان الحسن فی کتابه فھی شاحة فی الاصطلاح [4]
اسی طرح حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ثم ان الزیادۃ فی الصحیحین علی ما فی الکتابین یتلقاھا طالبھا مما اشتمل علیه احد المصنفات المعتمده المشتھرة وسائر من جمع في كتابه بين الصحيح وغيره ويكفي مجرد كونه موجوداً في كتب من اشترط منھم الصحيح فيما جمعه ككتاب ابن خزيمة [5]
[1] النکت
[2] علوم الحدیث ص ۱۸
[3] فتح المغیث للعراتی ص ۶۵ ج ۱
[4] تدريب الراوی ص ۵۳
[5] علوم الحدیث ص ۱۷