کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 44
انه یتوضا ونعلاه في رجليه ويقول كان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يفعل ذلك [1]
اسی طرح انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی درج ذیل روایت پر صحت کا حکم لگایا ہے جسے قاسم بن اصبغ نے روایت کیا ہے:
کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینتظرون الصلاۃ فیضعون جنوبھم فمنھم من ينام ثم يقوم الي الصلوٰة
اسی طرح حافظ ضیاء الدین المقدسی صاحب ’’المختارۃ‘‘ نے اپنی اس کتاب میں کئی ایسی احادیث کی تصحیح کی ہے جن کی صحت ائمہ متقدمین سے منقول نہیں تھی۔ حافظ منذری رحمہ اللہ نے حدیث ابی ہریرۃ فی غفران ما تقدم من ذنبه وما تأخر کی تصحیح کی ہے۔ حافظ دمیاطی رحمہ اللہ حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ ماء زمزم لما شرب له کی تصحیح کی ہے اور شیخ تقی الدین السبکی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شفاء السقام فی زیادۃ خیر الانام میں حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ من زار قبری وجبت له شفاعتی پر صحت کا حکم لگاتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا متاخر علماء کو اس منصبِ جلیلہ سے محروم و معزول کر دینا درست نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ ہر عالم کو خواہ متقدم ہو یا متاخر اس کا حق پہنچتا ہے بشرطیکہ وہ اہلیت رکھتا ہو۔ تفصیل کے لئے ’’فتح المغیث للعراتی رحمہ اللہ ، فتح المغیث للسخاوی رحمہ اللہ اور تدریب الراوی للسیوطی رحمہ اللہ ملاحظہ فرمائیے۔
اسی طرح حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ ، امام حاکم اور ان کی متدرک کا ذِکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وھو واسع الحظو في شرط الصحيح متاھل في القضاء به فالاولٰي ان نتوسط في امره فنقول ما حكم بصحته ولم نجد ذلك فيه لغيره من الائمة ان لم يكن من قبيل الصحيح فھو من قبيل الحسن يحتج به ويعمل به الا ان تظھر فيه علة توجب ضعفه [2]
امام ابن الصلاح کے اس قول پر بھی تعاقب کیا گیا ہے۔
[1] رواه البزار
[2] علوم الحديث ص ۱۸