کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 43
متقدمین پر ہی انحصار کرنا چاہئے لیکن علماءِ کرام نے آپ کی اس رائے سے اختلاف کیا ہے۔ چنانچہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ثم ما اقتضاه كلام ابن الصلاح من قبول التصحيح من المتقدمين ورده من المتاخرين قد يستلزم رد ما ھو صحيح وقبول ما ليس بصحيح فكم من حديث حكم بصحته امام متقدم اطلع المتاخر فيه علٰي علة قادحة تمنع من الحكم بصحته ولا سيما ان كان ذلك المتقدم ممن لا يري التفرقة بين الصحيح والحسن كابن خزيمة وابن حبان‘‘[1] امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’والاظھر عندی جوازہ لمن تمکن وقویت معرفته‘‘ علامہ عراقی رحمہ اللہ امام نووی رحمہ اللہ کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’وما رجحه النووی ھو الذی علیہ عمل اھل الحدیث فقد صح جماعة من المتاخرین احادیث لم نجد لمن تقدمھم فیما تصحیحا‘‘[2] اور علامہ ابن جماعۃ فرماتے ہیں : ’’قلت مع غلبة الظن انه لوصح لما اھمله ائمة الاعصار المتقدمة لشدة فحصھم واجتھادھم فان بلغ واحد في ھذه الاعصار اھلية ذٰلك والتمكن من معرفته احتمل استقلاله‘‘[3] چنانچہ حافظ ابن الصلاح کے معاصرین نے ہی کئی ایسی احادیث کی تصحیح کی ہے جن کی متقدمین سے صحت ثابت نہیں تھی اور آپ سے متاخر ائمہ نے بھی کئی ایک احادیث پر صحت کا حکم لگایا ہے۔ مثلاً آپ کے معاصر علماء میں سے صاحب ’’الوہم والایہام‘‘ حافظ ابو الحسن بن قطان رحمہ اللہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی درجِ ذیل روایت پر صحت کا حکم لگایا ہے:
[1] تدريب الراوی ۸۲ [2] ايضاً ص ۷۹ [3] علوم الحدیث ص 13