کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 40
حکمت میں ’’ہدیہ سعیدیہ‘‘ یبندی‘‘ اور بعض میں ’’شمس بازغہ‘‘ زیرِ درس ہیں ۔ ہیئت، ہندسہ اور حساب قریب قریب نصاب سے خارج ہی ہیں الا ما شاء اللہ۔ تاریخ خواہ کسی قسم کی ہو وہ ناب کا جز نہیں ہے۔ بہت کم مدارس میں تاریخ اسلام کی ایک دو کتابوں کا رواج ہے وہ بھی ادبی نقطہ نگاہ سے۔ حدیث اب قریباً مکمل صحاح ستہ پڑھایا جانے لگا ہے مگر اکثر غیر مانوس طور پر۔ جہاں تک تعلیم و تدریس کا تعلق ہے غالباً یہ نصاب کافی خیال کیا جاتا ہے لیکن مطالعہ کے لئے اساتذہ اور طلبہ دونوں کے نزدیک یہ کتابیں کافی نہیں ہیں ۔ اساتذہ اور طلبہ دونوں ہی یا پھر کم از کم اساتذہ کے مطالعہ میں عموماً ان کتابوں کی شروح اور حواشی رہتے ہیں ۔ چنانچہ ہر کتاب کے لئے اس کے متعد حواشی اور شروح کا سامنے رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ شروح اور حواشی تمام کے تمام متاخرین علماء کی جودتِ طبع کا شاہکار ہوتے ہیں جن کے اسلوبِ نگارش پر ہم اوپر خامہ فرسائی کر چکے ہیں ۔ ان حواشی کا مقصد نہ کتاب کا حل ہے اور نہ ہی فن کا احصاء۔ بلکہ محض اپنی ذہانت اور دقتِ نظر کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اور پھر اس نہج پر اساتذہ کرام چلتے ہیں ، وہ جس قدر بھی اِدھر اُدھر قیل و قال کی گتھیاں سلجھائیں اسی قدر فخر محسوس کرتے ہیں اور طلبہ بھی اسی اندازِ تدریس پر ہمہ وقت مر مٹنے کو تیار ہیں ۔ چنانچہ اکثر حواشی کا سمجھنا اصل کتاب سے بھی کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ غالباً اِس فن سے اس حاشیہ کو صرف اور صرف اسی قدر واسطہ ہوتا ہے کہ وہ اس فن کی ایک کتاب پر لکھا ہوا ہے۔ پھر یہ ہے کہ مدارس میں داخلِ نصاب کتب اکثر مکمل بھی نہیں پڑھائی جاتیں بلکہ چند ایک ابتدائی کتاب کے علاوہ نہ صرف یہ کہ مکمل نہیں بلکہ نصف اور ربع تک داخلِ نہیں ۔ بعض کتب کی مقدارِ درس اس قدر عام ہو چکی ہے کہ ہمارے مطابع ان کی اشاعت کے لئے بھی انہی حصوں کو منتخب کرنے لگے ہیں ۔ چنانچہ تفسیر بیضاوی اور نفحۃ الیمن وغیر کتب کا مکمل دستیاب ہونا بھی مشکل ہے۔ قبل ازیں کہ ہم مذکورہ فنون کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں ، کسی ہندی عالم کے چند عاربی اشعار، ظرافتِ طبع کے لئے پیشِ خدمت ہیں ۔ (ولنعم ما قیل فی علماء الھند) ؎ ايا علماء الھند طال بقائكم وزال بفضل الله عنكم بلائكم رجوتم بعلم العقل فوز سعادة واخشي عليكم ان يخيب رجائكم فلا في تصانيف الاثير هداية ولا في اشارات ابن سينا شفائكم