کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 4
لیکن ان کے اُٹھ جانے کے بعد جو اصاغر وارث بنے وہ سبحان اللہ نکلے، پورے ملک کو باپ کی جاگیر او خالہ جی کی کھیر سمجھے، اس پر پاکستانی گھبرائے تو بولے! گھبراؤ نہیں بس ہم آئے۔ لیکن آہ! ہزار بار آئے اور آ آ کر چلے بھی گئے مگر افسوس ان کا ’’وعدۂ فروا‘‘ کبھی بھی پورا نہ ہوا اور نہ ہی آئندہ اس کے کچھ آثار نظر آتے ہیں ۔ ان کے ساتھ ساتھ کمال عوام کا بھی ہے کہ شکوہ بھی رکھتے ہیں اور کہے بھی جاتے ہیں ؎ چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک راھرو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو مَیں لیکن ان کے نام پر ’’زندہ باد‘‘ کے نعرے بھی لگائے جا رہے ہیں ۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو خوب سمجھتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے اپنے شیشے میں اُتارنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور یہ بات کسی بھی ملک کے لئے نیک فال نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ملک کی تعمیر و ترقی راعی او رعایا کے حقیقی اور خوشدلانہ تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں ہوتی جو بہ شکلِ موجدہ عنقا ہے کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے سے جو نسبت ہے۔ صید او صیّاد (شکار او شکاری) کی ہے۔ موجودہ ارباب اقتدار اور ان کے عوام دونوں ہمارے سامنے ہیں اور دونوں نے جس طرح ایک دوسرے کے استحصال کی ٹھان رکھی ہے وہ بھی ان کے تعامل سے بالکل واضح اور عیان ہے۔ پیپلز پارٹی نے پہلے دن جو نعرہ ایجاد کیا تھا، وہ برسر اقتدار آنے کے بعد ان کے گلے کا طوق بن گیا ہے، عوام جھولی پھیلا کر بیٹھ گئے ہیں ، یہاں جیب و دامن ہی خالی ہیں ۔ سوچا کہ سستے نعروں کا جواب سستی اصلاحات کے ہوائی (نشریات) اعلانات سے ہی ہو سکتا ہے۔ یعنی عوام کو پھر انہی چکروں میں ڈال دیا جائے، جو انتخابی عہد میں ایجاد کیے گئے تھے لیکن بھوکے عوام ان سے بہلنے کے بجائے مایوسی اور تلخی کا شکار ہونے لگے ہیں ۔ اس لئے حکمران ان سستے اعلانات کے ساتھ ساتھ در پیش مشکلات کو بطور معذرت بھی پیش کرنے لگ گئے ہیں ۔ مگر اب وہ عوام جنہوں نے ان کے چلبلے نعروں کو چوم کر آنکھوں پر رکھ لیا تھا، ان کو تاڑ گئے ہیں ، تاہم خود کردہ راعلاجے نیست، ابھرنے کے بجائے منقار زیر پر ہو رہے ہیں گویا کہ حامیانِ عوام اب پارٹی کی آن کو وقار کا مسئلہ بنا کر مایوسیوں کے کڑوے گھونٹ پینے پر مجبور ہیں لیکن ’’تابہ کے‘‘؟ دراصل بات دونوں نہیں سمجھے، لیڈر سمجھے کہ انتخاب میں کامیابی اقتدار کا جھولا جھولنے کے لئے ہے اور عوام سمجھے کہ فصل پک گئی ہے، بس اب صرف کھانے کی دیر ہے۔ حالانکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ اقتدار پھولوں کا