کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 38
کی پیداوار ہے اور مذکورہ بالا علمی ماحول ہمارے اذہان میں راسخ ہے اور اسی فکری نہج پر ہمارے مدارس کا نصاب مرتب کیا گیا ہے۔ اساتذہ کے تعلیم و تربیت کے انداز نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی جو اس نصاب کی تکمیل کے بعد، ممکن تھا کہ، رہ جاتی اور طلبہ کو اس طرزِ فکر سے نجات دلا سکتی۔ مسلمانوں کے علوم کے دو عہد: قبل ازیں کہ ہم دورِ حاضر کے نصابِ تعلیم پر نظر کریں ہمیں مسلمانوں کے دو علمی دوروں پر نظر ڈال لینی چاہئے اس سے یہ اندازہ ہو سکے گا کہ مروجہ مدارس میں کس قسم کی ذہنی تربیت کرنی چاہئے۔ ترقی کا دور: جس کو بھی مسلمانوں کی علمی تاریخ سے دلچسپی ہے وہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کی علمی فتوحات کا دور اور ان کی مجتہدانہ قوتِ تصنیف کا عہد ساتویں یا پھر زیادہ سے زیادہ آٹھویں صدی ہجری پر ختم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے تقریباً تمام علمی اکتشافات خواہ وہ فلکیات سے متعلق ہوں یا عنصریات سے، طبعیات سے تعلق رکھتے ہوں یا کیمیا سے، ہندوسی ہوں یا حسابی، جغرافیائی ہوں یا تخطیط الارض سے متعلق سب انہی صدیوں سے متعلق ہیں ۔ اسی طرح علوم استخراجیہ کا استخراج اور ان کی تدوین بھی انہی صدیوں کے اندر ختم ہو گئی اس کے بعد اگر کچھ باقی رہا تو صرف تلخیص و شرح اور نقل و تحشیہ۔ الاّ ماشاء اللہ۔ اس دور کی تصانیف میں واضح طور پر فنی عروج، تحقیقی اور انتقادی ذہنیت کا رنگ پہلی نظر میں ہی نمایاں ہو جاتا ہے۔ جزئیات سے کلیات کے استنباط کی کوشش ہوتی ہے۔ ہر فن پر بحیثیت اس کے فن ہونے کے غور کیا گیا ہے۔ یہ نہیں کہ ایک فن کے مسائل کی ترجیح میں دوسرے فن کے اصول و ضوابط کو داخل کر دیا گیا ہو۔ دلائل میں فرضی کلیات کی نسبت استقراء کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ صحیح تحقیق و تنقید میں اکابر پرستی اور ائمہ کی پیروی حائل نہیں ہے۔ اس اسالیب کا واضح ثبوت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تصانیف ہیں ۔ انحطاط کا دَور: برعکس اس کے بعد کے علماء تہذیب و تنقیح کے اعتبار سے خواہ متقدمین پر فائق ہیں لیکن ان میں فنی عروج کی بجائے جمود و تقلید ہے۔ اجتہادی قوت کی قلت اور اکابر پرستی کے باعث صرف متقدمین کے کلام کی توجیہ و تاویل پر اکتفا کیا گیا ہے۔ تحقیق و تنقید اوّلاً تو ہے ہی نہیں اگر ہے تو فنی وجوہ اور