کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 37
اور اندازِ فکر سے ان پر واضح کیا جائے نہ کہ اسلامی عقائد و اعمال کے اثبات کے لئے کہ اس کا واحد ترجمان کتاب و سنت ہے۔ (ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ سنتی) ہندوستان میں علومِ عقلیہ کا داخلہ: برصغیر میں علومِ عقلیہ کا داخلہ مغلیہ دورِ حکومت میں ایران کے راستہ سے ہوا ہے۔ اہلِ ہند کے لئے یہ علوم نئے تھے۔ اسی لئے یہ لوگ اسے نئی چیز سمجھ کر پورے انہماک سے ان کی طرف متوجہ ہو گئے لیکن یہ ان کی قسمت تھی کہ ہندوستان میں متاخرین کی کتابیں ان کی مرعوب کن شخصیتوں کے ہمراہ آئیں ۔ چنانچہ وہ کتابیں ہندوستان کی مجالسِ تدریس میں مقبولیت حاصل کر گئیں اور انہیں علم کے متوالے اپنا مرکزِ فکر بنا کر بیٹھ گئے۔ اس طرح بجائے مختلف نظریات سے شناسائی حاصل کرنے کے ہندوستانی بد قسمتوں کے حصہ میں وہی بے مقصد لفظی بحثیں اور بے معنی نکتہ آفرینیاں رہ گئی اور بقولِ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ ہم قیل و قال کے مکدّر گڑھے میں گر گئے جس سے تلخیص و تشریح اور تحشیہ در تحشیہ کا بگڑا ہوا مذاق پیدا ہو گیا۔ لہٰذا علوم عقلیہ میں بھی اجتہادی اور انتقادی کام سے ان کی عقلی قوتیں محروم ہو گئیں ۔ ان کتابوں کی بنا محض قیاسات اور اٹکل پچو کلیات پر تھی اور علمائے ہند جز لا یتجزی کے ثبوت کے لئے اجزا کو وہم کی قینچی سے کاٹنے میں مصروف ہو گئے جس سے ان کی تجرباتی قوتوں کو کسی قسم کی کوئی مشق نہ ہو سکی بلکہ متأخرین کے عام سلسلۂ فکر کی تقلید میں ہندوستانی علماء و طلباء کے سامنے سے تجربے کی اہمیت اُٹھ گئی اور وہ بھی اسے اپنے علمی درجے سے پست خیال کرنے لگے اور اس سے کام لینا صرف اہلِ صنعت و حرفت کے لئے مخصوص سمجھا جان لگا اور ’’علومِ عالیہ‘‘ کے لئے بھی صرف ذہنی اور گھڑے ہوئے کلیوں کو کافی ہی نہیں سمجھا گیا بلکہ انہیں ہی اہم مانا گیا۔ طبیعات، الٰہیات، منطقیات کی بھی یہی حیثیت تھی۔ عقلیات میں سے وہ فنون جن کو عملی اغراض سے تعلق تھا۔ مثلاً ریاضیات وغیرہ انہیں اس معنی میں کوئی خاص ترقی حاصل نہ ہو سکی کہ مختلف مشاہدات و تجربات سے ان کے مسلمہ اصول و ضوابط میں کمی بیشی یا اصلاح و ترمیم کی جاتی یا مزید اصولوں کا استخراج کیا جاتا مگر برخلاف اس کے اگلوں کو ’’معصوم‘‘ اور ’’ہمہ دان‘‘ مان کر ان کے کلام کی توجیہ و تاویل پر ہی اکتفا کیا گیا اور اس میں بھی تلخیص و تشریح اور حواشی سے آگے نہ بڑھ سکے۔ (یونانی علوم او۔ عرب ص ۱۹۸) پاکستان کے اسلامی عربی مدارس: بالکل جدّت میں ڈھلے ہوئے چند مدارس کو چھوڑ کر ہمارے موجودہ دینی مدارس کا ڈھانچہ بھی انہی اثرات