کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 36
مخالف ہیں اور وہ بھی اس حد تک جس کا ذِکر مروجہ حنفی کتبِ فقہ میں تھا۔ باقی رہے ان کے اصول تو ان سے کوئی واسطہ ہی نہ تھا کیونکہ مقلد کے لئے اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں اذہان کا یک طرفہ طور پر مطمئن رہنا اور اسے ہی کامل و خالص اسلام سمجھنا ایک ناگزیر امر تھا۔ آج سے کچھ عرصہ قبل کے معدودے چند مصنفین کو چھوڑ کر اکثر کی تصانیف اسی جامد اور غیر محققانہ روش کی آئینہ دار ہیں جس کا شکوہ حکیم الامت شاہ ولی اللہ دہلوی اپنی تصانیف میں جا بجا کرتے ہیں ۔
اوپر ذِکر ہو چکا ہے کہ ہندوستانی علماء کی نظر میں قرآن و حدیث اور صحابہ و تابعین کے فقہی طور طریقے کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے اور نہ ہی برصغیر کی تعلیمی و تدریسی مجالس میں ان کی کوئی ضرورت سمجھی جاتی تھی۔ اسی طرح عقائد کا حال تھا۔ علماء کی توجہ عقائد کی طرف ہوئی بھی تو کتابی صورت میں وہ مجموعہ جات ان کے سامنے آئے جو بعید از کار فلسفیانہ مباحث پر مشتمل تھے جن میں فلسفہ کی مبادیات و اصول کو عقائد کی بنیاد کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا۔ اگر کوئی نظریاتی اختلاف زیرِ بحث آتا بھی تو انہی مسلمات کے ذریعہ حل کیا جاتا جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ مبدأ اور معاد کی تفصیلات فلسفہ و کلام سے طے ہونے لگیں اور مروجہ علم کلام سے حل شدہ جملہ تفصیلات نے اسلامی عقائد کی حیثیت اختیار کر لی اور اس سلسلہ میں حاملِ وحی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے تعلیم و تربیت یافتہ سلف صالحین کا طرزِ فکر بالکل نظر انداز کر دیا گیا حالانکہ ان متکلمانہ مباحث اور نظریات سے عموماً اور متاخرین علمائے کلام جن کے توسط سے یہ علم ہندوستان میں رواج پذیر ہوا، کی ’’ان قیل قلت‘‘ جیسی لفظی بے معنی اور غیر مقصود بحث سے خصوصاً بھول بھلیاں ہی سامنے آئیں جبکہ علمائے سلف کا انداز فکر ٹھوس اور سادہ ہونے کے ساتھ یقین و ایمان کی دولت سے بھی مالا مال کرتا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ وہ احتیاط جو تفرق و انتشار سے بچنے کے لئے اسلام کے اصول (عقائد) میں اختیار کرنی چاہئے تھی (کیونکہ وہ امور غیبیہ سے متعلق اور غیر متبدل ہیں ) وہ تقلید و انجماد کی شکل میں فروعاتِ فقہیہ میں واجب قرار دی گئی جبکہ دنیا میں حالات کی تغیر پذیر ہونے کی وجہ سے ان کے لئے اجتہاد و قیاس کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہئے تھا (کیونکہ فقہی اختلاف جبکہ وہ مقلدانہ نہ ہو تشتّت و افتراق کا مسبب نہیں بلکہ اختلاف مکان و زمان کی وجہ امت کے لئے آسانی اور رحمت کا باعث ہوتا ہے۔)
میں یہ بھی واضح کر دوں کہ فلسفہ و کلام کو اسلامی قرونِ وسطےٰ میں اگر علمائے اہل سنت نے استعمال کیا بھی ہے تو فلسفۂ یونان و عجم کے مقابلہ کی ضرورت سے تاکہ ان کے عقائد و اعمال کا بطلان ان کے مسلمات