کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 35
برصغیر پاک و ہند میں اسلامی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی اسلامی علوم کی مجالسِ درس و تدریس بھی قائم ہوئیں ۔ ان مجالس میں عام طور پر ابتدائی صرف و نحو اور فارسی کے بعد فقہ اور اصولِ فقہ کی تعلیم کا اہتمام تھا۔ علومِ قرآن و حدیث برصغیر کی مجالسِ درس کے لئے ایک حد تک غیر مانوس تھے۔ تبرکاً بعض اساتذہ حدیث کی ایک آدھی کتاب پڑھا دیتے تھے۔ علومِ عربیہ صرف و نحو وغیرہ کی تعلیم بھی بہت معمولی ہوا کرتی تھی۔ صوفیا کی مجالسِ ذکر و فکر میں اگرچہ تصوف کا زور تھا لیکن اعلیٰ اور مستند کتابوں سے ان بزرگوں کی محافل خالی ہی ہوا کرتی تھیں ۔ برصغیر میں دینی علوم: مروّجہ تعلیم فقہ و اصول میں بھی اجتہاد و استنباط کو دخل تھا نہ کہ اصولِ فقہ پر فروعِ فقہیہ کے انطباق کا رواج۔ کیونکہ یہ اصول وضع ہی اس لئے کئے گئے تھے کہ ان سے فروعِ حنفیہ کے لئے کتاب و سنت سے جواز پیش کیا جا سکے۔ گویا یہ اصول فروع کے لئے تھے نہ ہ ان اصولوں کے ذریعہ کتاب و سنت سے فقہ کا استنباط مقصود تھا۔ علاوہ ازیں آپ اسے ہندوستان کے سماجی اور معاشرتی حالات کہہ لیجئے یا علماء ماوراء النہر کے طرز تفقہ کی کرم فرمائی (جن کے توسط سے فقہ و اصول ہندوستان میں در آمد ہوئے) کہ یہاں شخصیت پرستی اور متوارث خیالات و ادہام (اباً عن جدٍ) نہ صرف عوام کے دماغوں پر مسلط تھے بلکہ خواص اور حاملینِ علومِ شریعت بھی ان سے محفوظ نہ تھے۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ برصغیر میں اسلام کی اشاعت میں سب سے بڑا دخل صوفیائے کرام کے اثر کو تھا۔ ان کا احترام مسلمان بادشاہ بھی کرتے تھے بلکہ انہیں وہ اپنے ساتھ ہندوستان لائے۔ چونکہ یہ طبقہ درویشی اور صلحِ ل اور ہر ایک کے متعلق حسن ظن کی پالیسی پر قائم تھا۔ اس لئے ان کے متصوفانہ خیالات و افکار کو بڑی پذیرائی ہوئی اور عوام و خواص توہم پرستانہ میلانات کی بنا پر انہیں قبول کرتے رہے لیکن اس عام ذہنیت کا منفی نتیجہ یہ نکلا کہ غیر اسلامی اوہام و مراسم اسلام کے نام پر رواج پکڑتے رہے اور بالآخر انہی عقائد و اعمال نے جڑیں پکڑ لیں ۔ اس متصوفانہ اسلام کا یہ اثر ہوا کہ اسلام کے اصل اصول کتاب و سنت اور اس کے اولین علمبردار و شارحین صحابہ کرام اور تابعین عظام رحمہم اللہ اجمعین کا طرزِ فکر و عمل گوشۂ نسیان میں پڑ گیا اور ائمہ اربعہ بلکہ مذاہب اربعہ میں سے بھی صرف حنفی فروع و اصول ان کے سامنے رہ گئے۔ البتہ اساتذہ و طلبہ کودوسرے ائمہ کے صرف فروع سے اتنی واقفیت ہوتی تھی کہ فلاں مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ یا شافعیہ ہمارے