کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 33
جنات کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ان علوم میں حقیقت صرف اتنی ہوتی ہے جتنی جنات آسمانی وحی سے اچک لیتے ہیں ۔ باقی اس میں نناوے فی صد جھوٹ ہوتا ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تفصیلی فرمان مذکور ہے۔
قرآن کریم میں آسمانی علوم کے حصول کے لئے جنات کا آسمانوں پر جانا ثابت ہے۔ بعثتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تو وہ بلا روک ٹوک جاتے تھے لیکن سلسلہ وحی کے شروع ہو جانے کے بعد سے آسمانی دروازے ان پر بند ہو گئے ہیں اور ان پر فرشتے اور ستارے پہریدار مقرر ہو گئے۔[1] اب بھی جنات اللہ تعالیٰ کی (آسمانِ دنیا پر) ملائکہ سے دنیاوی امور کے متعلق بات چیت سننے کے لئے اوپر جاتے ہیں لیکن انہیں فرشتے آگ مارتے ہیں ۔ گاہے کوئی نہ کوئی بات (بطور آزمائش) انہیں بھی مل جاتی ہے۔[2] جس میں یہ ننانوے فی صد جھوٹ ملا کر اپنے اولیاء مذکورہ بالا یعنی کافرانہ علوم کے عاملین کے پاس جا کر بتلاتے ہیں ۔ جو وہ اپنے مریدین کو بتلاتے ہیں ۔ اس طرح دنیا کو گمراہ کرتے ہیں ۔ یہ رحلات تو بہ نیتِ فاسد ہوئے لیکن ان کا بہ نیت خیر یعنی حصولِ علم شریعت کے لئے بھی انبیاء اور علماء کے پاس آنا جانا بہت ہے۔ [3]یہ عام علماء، صلحاء کی مجالس میں شریک ہوتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی ان کا آنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے جیسا کہ چند جنات جو تہامہ سے آئے اور عکاظ کے میلہ کی طرف جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازِ فجر کے وقت مقامِ نخلہ میں ملے (جبکہ آپ طائف سے فریضۂ تبلیغ ادا کرنے کے بعد لوٹ رہے تھے۔) اور قرآن سن کر متعجب ہوئے اور ایمان بھی لائے۔ [4] (البخاری ص ۷۳۲، ج ۲) (باقی آئندہ)
[1] سورۃ الجن آیت ۸ تا ۱۰۔ پ ۲۹
[2] سورۃ الصافات: آیت ۸ تا ۱۰۔
[3] حضرت سلیمان کی تو ان پر حکومت بھی تھی اور یہ آپ کے بہت سے کام سر انجام دیتے تھے۔ قرآن کریم (سورۂ سبا) میں ان کا بیت المقدس کی تعمیر کرنے کا ذِکر ہے۔ لیکن اب سلیمانی کی دعا کی وجہ سے انہیں محکوم بنانا ممنوع ہے۔
[4] قرآن کریم میں بھی قرآن کو سن کر جنوں کا ایمان لانا مذکور ہے: واذ صرفنا الیک نفرا من الجن یستمعون القراٰن ۔۔۔ اولئک فی ضلٰل مبین (سورۃ الاحقاف: آیت ۲۹ تا ۳۲)