کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 32
اللہ تعالیٰ چاہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ علم والے حکمت والے ہیں ۔ اس آیت کریمہ میں فرشتوں کا (عموماً اور حضرت جبریل کا خصوصاً) اللہ اور بندوں کے درمیان واسطہ بننے کا ذِکر ہے۔ یہ فرشتوں کے رحلاتِ علم ہی ہیں جن کی زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں ۔ احادیث میں فرشتوں کا عام طور پر انسان کی شکل میں اور گاہے اپنی شکل میں انبیاء کے پاس آنے جانے کا ذِکر موجود ہے۔ مشکوٰۃ کے شروع میں ہی ہے کہ جبریل امین تعلیمِ دین کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اہم باتوں میں سے کئی کے متعلق مکالمہ کیا۔ ابتداءِ وحی کے وقت غارِ حرا میں بھی جبریل امین اپنی اصلی شکل میں آئے تھے جب کہ سورۃ العلق نازل ہوئی۔ پھر سورۃ المدثر کے وقت بھی جبریل اُفق میں دکھائی دیئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ وحی اور علمِ الٰہی کے تحفظ اور نگرانی میں حبر الامت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قرآنی لفظ ’’رصدا‘‘ کی تفسیر میں یہ قول کافی ہے کہ اس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو شیاطین سے حفاظتِ وحی کے لئے نازل ہوتے ہیں ۔ (رواہ ابن مردویہ وابن ابی حاتم فی تفسیریہما) ابن مردویہ میں اسی آیت کی تفسیر میں یہ بھی مذکور ہے۔ ما انزل اللہ علی نبیه اية من القراٰن الا وسعھا اربعة من الملائكة يحفظونھا حتي يوديھا الي رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یعنی اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی ہر آیت کے نزول کے وقت حفاظت کے لئے چار فرشتے بھیجتے ہیں ۔ (فتح القدیر ص ۳۱۴۔ جلد ۵) فرشتوں کے یہ سب سفر تعلیمِ انسانی کی غرض سے ہیں ۔ علاوہ ازیں فرشتوں کا مجالسِ قرآن و ذِکر اور مختلف مواقعِ خیر میں زمین پر اترنا قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ رحلہ جنات: جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ فرشتے انسانی تعلیم کی غرض سے اترتے ہیں ۔ اسی طرح جنات انسانوں سے علم سیکھنے کے لئے پاس آتے جاتے ہیں ۔ گویا ملائکہ کا رحلۂ تعلیم ہواتو جنات کا رحلۂ تعلم، خواہ بہ نیت فاسد ہو یا بخیر، کیونکہ وحی کے علاوہ جتنے مزعومہ غیبی علوم ہیں مثلاً سحر، جفر، رمل، کہانت، نظر اور شعبدہ بازی، موجودہ مسمریزم اور ہپناٹزم وغیرہ، ان سب میں