کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 31
مخلوق یعنی ملائکہ اور جنات کے رحلاتِ علم کا بھی کچھ ذِکر کر دیا جائے۔ اللہ کی مخلوق میں سے یہ دونوں بنی نوع انسان کی طرح ذوی العقول ہیں ۔ فرشتے تو مقصدِ عبودیت میں انس و جن کے معاون اور جن انسان کی طرح شریعت کے مکلف ہیں ۔
علم ایسی چیز ہے کہ ہر کوئی اس کے حصول کے لئے بے قرار ہے اور اللہ تعالیٰ نے علم کی برتری کی بنا پر ہی آدم کو ملائکہ و جنات (جن کا سردار ابلیس تھا) پر فضیلت دی اور انہیں آدم کو سجدۂ احترام و تعظیم کرنے کا حکم فرمایا۔ فرشتوں نے تعمیلِ حکم کی اور وہ انسان کے معاونِ ابدی قرار پائے جبکہ جنوں کے سردار ابلیس نے تکبر کیا اور سجدہ سے انکار کیا لہٰذا وہ ملعون و مردود قرار[1] پایا لیکن عام جنات تو صرف مکلف رہے لیکن ہمیشہ کے لئے ان سے نبوت چھین لی گئی اور ان کے انبیاء و پیغامبر انسان ہی قرار پائے۔ کیونکہ یہی علمِ الٰہی کے امین، مسجود الملائکہ اور خیر البریہ (افضل المخلوقات) تھے۔ اب آپ الگ الگ ملائکہ اور جنات کے رحلات تعلیم و تعلم کا مختصر حال سنیے:
رحلہ ملائکہ:
فرشتے اللہ تعالیٰ اور انسان کے درمیان علمِ الٰہی کا واسطہ اور محافظ ہیں جیسا کہ قرآن میں ہے:
مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِه مَا يَشَاءُ اِنَّه عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ (الشوریٰ: ۵۱)
یعنی کسی بشر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے خطاب کی تین ہی صورتیں ہیں کہ یا تو براہِ راست القاء کریں یا پس پردہ بات کریں یا اپنا قاصد بھیجیں جو اللہ کے احکام ویسے ہی بتلائے جیسے
[1] ابلیس کو نافرمانی کی وجہ سے ملعون قرار دیا گیا تھا لیکن چونکہ عام جنات نے کوئی نافرمانی نہ کی تھی اس لئے وہ انسان کی طرح مکلف ہی رہے لیکن اللہ تعالیٰ کی امانتِ علمی کا امین بننے کی وجہ سے خیر البریہّ انسان ہی قرار پایا اور نبوت اس کا خلاصہ بنی واضح رہے کہ انسان سے قبل جنات کے انبیاء انہی میں سے ہوتے تھے لیکن آدم کے بعد یہ نبوت آدم کے حصہ میں آئی۔ نبوت کا چھیننا کوئی ان کے لئے سزا نہ تھا بلکہ یہ اللہ کا فضل ہے اللہ جسے چاہے دے۔ ان کے سردار ابلیس کی نافرمانی کی وجہ سے اگر اپنا کوئی جزوی فضل و احسان ان پر نہ کیا یا اگر انسان کی افضلیت کی وجہ سے انسان ہی اللہ تعالیٰ کا نمائندہ (نبی) قرار پایا تو اس پر کوئی اعتراض نہ ہونا چاہئے۔ اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے سورۃ البقرہع ۴ اور سورۃ الاحزاب کے آخری رکوع میں غور فرمائیں۔