کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 30
میں سے کسی کے ما تحت کافی تھا لیکن ان کی اس معذوری کے پیش نظر خصوصاً جبکہ دور دراز کے سفر کسی مونس و غمخوار کے بغیر کیے ہوں ، علم کا حصول ایک نہایت حیرت انگریز امر ہے۔ حدیث کے مشہور نابینا راوی قتادہ بن دعامہ سدوسی نے طلبِ حدیث کے لئے حجاز، بصرہ اور واسط وغیرہ کا سفر کیا۔ حجاز میں مشہور تابعی (سرخیل اہل الحدیث) امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے پڑھنا شروع کیا تو طلب اور شوق علم میں انہیں اس طرح لازم پکڑا کہ وہ گھبرا اُٹھے اور تیسرے روز ہی فرمانے لگے کہ اے اللہ کے بندے تو یہاں سے نکل، تو نے تو مجھے نچوڑ لیا ہے۔ بصرہ میں علماء کے ہاں اس قدر آنا جانا تھا کہ ہموار نا ہموار جگہ کی پروا نہ کرتے تھے اور بغیر رہبر کے ہر جگہ پہنچ جاتے تھے۔ ۱۱۸ھ میں شہر واسط میں مبتلائے طاعون ہو کر وفات پائی۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا تحصیل علم کے دوران دوبارہ نابینا ہونے کا قصہ قارئین پہلے مطالعہ فرما چکے ہیں ۔ اس دوران میں بھی ان کا شوق تعلیم و تعلم جاری رہا۔ صحاح ستہ کی مشہور کتاب جامع ترمذی کے مصنف امام محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ مادر زاد نابینا تھے۔ تاہم ان کی وسعتِ معلومات اور جلالتِ علمی ان کی ’’جامع‘‘ سے ظاہر ہے۔ انہوں نے اس علم کی خاطر حجاز عراق، خراسان وغیرہ کے سفر کیے اور علماء سے کسبِ فیض کیا۔ مادر زاد نابینا حافظ الحدیث ابو العباس رازی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال سے شیفتگی میں بلخ بخارا، نیشا پور اور بغداد پہنچے (واضح رہے کہ بلغ سے بغداد تقریباً ۱۳۶۵ میل دور ہے)۔ اِسی طرح صائن الدین مکی آٹھ نو برس کے تھے جب نابینا ہو گئے، باپ کا سایہ سر سے اُٹھ چکا تھا۔ وارثوں میں ایک ماں اور ہمشیرہ تھی۔ ماں اپنے نابینا بیٹے کو نہ سنبھال سکی۔ لہٰذا آپ نے تحصیلِ علم کے لئے اپنا علاقہ چھوڑا اور موصل چلے آئے، جہاں قرآن مجید حفظ کیا اور ادب کی تعلیم حاصل کی پھر بغداد چلے گئے۔ یہاں عربی ادب میں مہارت پیدا کی اور علمائے حدیث سے حدیث کا سماع کیا، پھر وہاں سے وطن لوٹے، پھر دوبارہ موصل کا رخ کیا، پھر یہاں سے شام پہنچے، بیت المقدس گئے، وہاں سے حلب اور حلب سے پھر موصل آگئے اور وہیں پیوند خاک ہوئے۔ یہ سب علمی رحلات تھے۔ رحلۂ ملائکہ و جنات: تکمیل بحث کی خاطر دل چاہتا ہے کہ رحلۂ علماء کے بیان میں خاکی مخلوق کے ساتھ نوری اور ناری