کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 29
طبِّ یونانی کی بجائے طبِّ اسلامی کہنے کو جی چاہتا ہے۔ اس دور کے اکثر علماء دینی علوم کے ساتھ ساتھ طب کے بھی ماہر ہوتے تھے اور اسے دینی علوم ہی کی طرح اہتمام سے سیکھتے تھے۔ غزالی رحمہ اللہ و رازی رحمہ اللہ بلند پایہ عالم اور ماہر طبیب بھی ہیں جبکہ کئی علماء نے تو خاص طب نبوی کے نام سے کتابیں لکھیں ۔ امام ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب ’’طب النبوی‘‘ اور امام سیوطی رحمہ اللہ کی ’’کتاب الرحمۃ فی الطب والحکمۃ‘‘ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ امام شافعی متبحر عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماہر طبیب بھی تھے۔ اسی طرح مشہور مورخ ابن اصیبعہ بیک وقت علامۃ الدہر اور طبیب حاذق تھے اور ان کی طرح اس فن میں ان کی ایک بہن اور بیٹی بھی یدِ طولیٰ رکھتی تھیں ۔
علامہ سید شریف کو ایام طالب علمی میں شوق ہوا کہ وہ امام رازی رحمہ اللہ کی کتاب شرح مطالع خود ان سے پڑھیں چنانچہ اس دُھن میں وہ ہرات پہنچے، اس وقت امام کی عمر دسویں منزل کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی اور قویٰ مضمحل ہو چکے تھے۔ اس لئے اس کہن سالی میں انہوں نے جواں ہمت سید کو اپنی طاقت سے باہر سمجھتے ہوئے اپنے شاگرد مبارک شاہ کے پاس قاہرہ جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس کا پڑھانا میرا پڑھانا ہی ہے اور ایک سفارشی رقعہ لکھ دیا۔ اس سفارش سے سید شریف حلقہ رس میں شامل تو کر لئے گئے لیکن انہیں نہ تو جماعت میں قرأت کا موقع ملتا اور نہ ہی ان کا مستقل سبق شروع ہو سکا۔ لہٰذا وہ صرف سماع پر قناعت کرتے تھے۔ ایک شب مبارک شاہ صحن مدرسہ میں چہل قدمی کر رہے تھے کہ ایک جانب سے کسی کی آواز کان میں پڑی۔ متوجہ ہو کر سنا تو میر سید شریف کہہ رہے تھے۔
’’مصنف یوں کہتے ہیں ، استاد کا یہ ارشاد ہے اور میرا خیال اس طرح ہے۔‘‘
اس ذہانت سے مبارک شاہ بڑے متاثر ہوئے اور انہیں طلباء میں ایک نمایاں مقام دینے لگے۔ [1]
رحلۂ نابینا علماء:
بصارت اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ حصول علم کے لئے تو تقریباً لا بدی چیز ہے لیکن ان مسلمان علماء کے تبحرِ علم اور اس کے حصول پر تعجب ہوتا ہے جنہوں نے نابینا ہونے کے باوجود علمی سمندروں میں غوطے لگائے اور بیناؤں پر بھی سبقت لے گئے اگرچہ ان علماء کا ذِکر بھی سابقہ عنوانوں
[1] علمائے سلف و نابینا علماء بحوالہ عیون لا بناء ص۲۱۹ ج ۲