کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 27
اِس دور میں اس بات کا ذِکر فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ عربی زبان و ادب میں احتیاط کا یہ عالم تھا (مثلاً بعض ادباء سے منقول ہے) کہ جو ادباء زبان کی تعلیم کی غرض سے شہروں میں آتے تو علماء پہلے ان کا امتحان لیتے۔ اگر وہ شہری زبان سے ناواقف ہوتے تو ان سے اخذ علم کرتے ورنہ ان سے نقل کرنا احتیاط کے منافی سمجھتے۔ پھر جب شہریوں کے ساتھ اختلاط سے یہ لوگ شہری زبان سے خوب واقف ہو جاتے تو ان سے عربی زبان سیکھنا بند کر دیتے۔ جاہلی شراء کا کلام حفظ کرنے والے تو بہت ہیں لیکن یہاں رحلہ کے اعتبار سے ان کا ذِکر غیر متعلق ہے۔ ہاں رحلۂ تعلیم و تعلّم کی چند ایک مثالوں کا ذِکر مناسب رہےگا۔
حماد بن راویہ (متوفی ۱۵۵ھ) جنہیں ولید بن یزید نے ۲۹۰۰ قصائد از بر ہونے پر کامیابی کی سند دی تھی، کا ذِکر ہے کہ ایک دفعہ ہشام ابن عبد الملک کو ایک شعر کے قائل کا علم نہ ہو سکا۔ وہ شعر یہ تھا:
ودعوا بالصبوح یوما فجاءت
قينة فی عينھا ابريق
تو اس نے حماد الراویہ کو کوفہ سے دمشق بلا بھیجا۔ چنانچہ حماد نے اس کے پاس جا کر اس قصیدہ کے باقی اشعار سنائے اور بتلایا کہ یہ شعر قصیدۂ عدی بن زید سے ہے۔ عربی ادب کے علم کی غرض سے جو لوگ ادباء کی مجالس میں دور دراز کے سفر طے کر کے حاضر ہوتے تھے اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ جب مشہور ادیب الفرّاء نے اپنی کتاب المعانی لکھوائی تو حاضرین طلبہ کی کثرت کی وجہ سے ان کا شمار مشکل تھا۔ اس مجلس میں صرف قاضیوں کی تعداد اسی تھی۔
رحلۂ اطباء:
انصاف نہ ہو گا اگر میں رحلات کے سلسلہ میں اطباء کا ذِکر نہ کروں ۔ اگرچہ علم طب کا براہِ راست دین سے کوئی تعلق[1] نہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طبی ہدایات علم حدیث کا ایک زرّیں باب ہیں ۔ اور اسی
[1] شاہ ولی اللہ نے اپنی مشہور تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں علمِ طب کو دنیاوی امور سے شمار کیا جن کا دار و مدار تجربہ پر ہے اور اس سلسلہ میں نبی ﷺ کی ہدایات کو آپ کے فرمان انما انا بشر اذا امرتكم بشي من دينكم فخذوا به واذا امرتكم بشي من رايي فانما انا بشر پر محمول کیا ہے۔ (واللہ اعلم) ملاحظہ ہو حجۃ اللہ البالغہ ص ۱۲۸ ج۱۔