کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 26
زبان چونکہ عربی تھی اس لئے کتاب و سنت کے فہم و سنت کے فہم و بصیرت کے لئے عربی زبان کی واقفیت نہایت ضروری ہے مسلمانوں نے اس کا احساس کرتے ہوئے اور عربی ادب[1] کو دین سمجھتے ہوئے اس کی بڑی خدمت کی اور اسے نہ صرف سیکھا سکھایا بلکہ اس کے لئے بڑے بڑے علوم ایجاد کیے۔ صرف و نحو، بلاغت، عروض و قوانی، لغت وغیرہ بیش بہا قیمتی علوم مسلمانوں ہی کے وضع کردہ ہیں ۔ جہاں تک اصل عربی ادب و زبان کا تعلق ہے۔ اس کے لئے دورِ جاہلی صدرِ اسلام اور اموی دور بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس دوران شعر و شاعری اور لغت و ادب کا مرکز زیادہ تر حجاز ہی رہا اور باقی قبائل کی حیثیت ثانوی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم بھی لغتِ حجاز ہی میں نازل ہوا اور اسی لے کتاب و سنت کے فہم کے لئے بطور استناد اسی دور کی زبان پیش کی جا سکتی ہے۔ لیکن بعد میں مؤلدین[2] کی کثرت کی وجہ سے اور شہری ماحول اور قوموں کے کثیر اختلاط کی وجہ سے زبان کا وہ معیار قائم نہ رہ سکا۔ تاہم اس تبدیلی کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کا ایک جمِ غفیر عربی زبان کے تحفظ کے لئے میدان میں نکل آیا جن کی کوششوں سے بیسیوں نئے علوم معرضِ وجود میں آئے۔
بقول علامہ فرید وجدی (صاحب دائرۃ المعارف) سب سے پہلے جس نے اس سلسلہ میں سفر اختیار کیا وہ یونس بن حبیب (متوفی ۱۸۳ھ) تھے۔ ان کے بعد مشہور شاعر خلف الاحمر تھے جنہوں نے صرف عربوں کی شعر و شاعری اور ان کے اصلی حالات معلوم کرنے کے لئے بدوؤں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے ہاں رہے۔ انہوں نے ۱۸۰ھ میں وفات پائی۔ ان کے بعد مشہور نحوی خلیل بن احمد نے قبائل عرب سے مل کر ان کی مادری اور اصلی زبان کی چھان بین کی۔ ان کا سن وفات ۱۷۵ھ ہے۔ ان کی پیروی میں ابو زید انصاری (متوفی ۲۱۵ھ) نے عرب علاقوں کا سفر کیا اور بدوؤں سے بہت زیادہ استفادہ کیا۔ یہ سلسلہ چوتھی صدی ہجری تک چلتا رہا۔ پھر عرب دیہات کی زبان بھی دست بردِ زمانہ سے نہ بچ سکی۔ نیز عربی زبان اور اس کے متعلقہ علوم مدون ہو کر عربی ادب اس قدر محفوظ ہو چکا تھا کہ پھر بغرضِ تدوین رحلہ کی ضرورت بھی نہ تھی۔ اگرچہ بعد میں علیم و تعلّم کی غرض سے یہ سلسلہ جاری رہا لیکن اس کے لئے کوئی علاقہ مخصوص نہ رہا۔
[1] حضرت عمرؓ کا مشہور فرمان ہے: تعلموا العربية فانھا من دینکم۔ عربی زبان سیکھو یہ تمہارے دین سے ہے۔
[2] عربوں کی وہ اولاد جو غیر قوموں کے اختلاط سے پیدا ہوئی۔