کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 25
بنا دیا تھا جس کی چھان پھٹک بھی محدثانہ معیار پر تھی۔ باقی حصہ کو اسلام کے اصولی مسائل (فقہ اکبر) اور حرام و حلال (فقہ اصغر) کے لئے ناقابلِ استناد قرار دے کر عام تاریخ شمار کیا جس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ واقعات کا کچھ تفصیلی خاکہ ہمارے سامنے آجاتا ہے جو نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے کا مصداق ہے۔ نیز وہ شخصیتیں جو اگرچہ دینی نہیں لیکن اپنی دنیاوی اہمیت کی وجہ سے دین و شریعت پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں ان کا سوانحی خاکہ اگر یقینی حیثیت میں نہیں تو اس تفصیل سے ان کے متعلق اجمالاً اتنا علم ضرور حاصل ہو جاتا ہے جس پر اعتماد کیا جا سکے۔ اس طرح علم تاریخ سے سابقہ تجربات کا فائدہ بھی ملتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کیونکہ تاریخ کے لئے باوجود محدثانہ معیار قائم نہ رکھنے کے مسلمانوں نے اصولِ روایت کا اتنا معیار ضرور ملحوظ رکھا ہے کہ تاریخ جاہلیت کی طرح بے سروپا کہانیوں اور بے سند قصوں کا مجموعہ نہ رہ جائے۔ جن علماء نے تاریخ دانی میں ایک مقام حاصل کیا اور کتب تاریخ بھی تصنیف فرمائیں ان میں سے بخاری رحمہ اللہ ، طبری رحمہ اللہ ، ابن سعد رحمہ اللہ ، ابن ہشام رحمہ اللہ ، ابن عبد البر رحمہ اللہ ، ابن حزم رحمہ اللہ ، ابن اثیر رحمہ اللہ ، ابن کثیر رحمہ اللہ ، ابن حجر رحمہ اللہ ، ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ابن القیم رحمہ اللہ ، ابن خلدون رحمہ اللہ ، خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور سیوطی رحمہ اللہ کی کتبِ سیر و تواریخ خصوصی طور پر قابلِ اعتماد اور علماء کے ہاں متداول ہیں ۔
علمِ تاریخ سے قریبی تعلق رکھنے والا ایک علم، علم جغرافیہ ہے جس میں مشاہیر زمانہ کے بجائے حالاتِ مقام و مکان سے متعلق بحث ہوتی ہے اور مختلف خطوں اور علاقوں کی خصوصیات کا ذِکر ہوتا ہے۔ اگرچہ فی زمانہ اس سلسلہ میں یورپ نے بڑی شہرت حاصل کی ہے لیکن مسلمان سیاحین کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کام کی ابتداء مسلمانوں نے ہی کی اور اپنے ترقی یافتہ دور میں انہوں نے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیئے / مثلاً مشہور مسلمان جہاں پیما ابن بطوطہ کا ایک واقعہ ان کے دور دراز کے سفر اور سیاحت کا پتہ دیتا ہے، وہ یہ کہ جب ابن بطوطہ سکندریہ پہنچے تو شیخ برہان الدین اعرج کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ نے دورانِ ملاقات اپنے تین بھائیوں کو، جن میں سے ایک فرید الدین نامی ہند میں تھے، دوسرے زین الدین سندھ میں اور تیسرے برہان الدین چین میں تھے۔ سلام پہنچانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چنانچہ ابن بطوطہ نے ان سب کو فرداً فرداً مل کر ان کا سلام پہنچایا۔ افسوس! کہ آج مسلمانوں کے زوال و انحطاط کے ساتھ ہی اس کام کے امین غیر بن گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے یہ عظیم الشان کارنامے بھی گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔
رحلۂ اُدباء:
مسلمانوں کی الہامی کتاب ’’قرآن‘‘ اور ان کے پیشواء محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی