کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 22
رحلۂ علم
مولانا ثناء اللہ بلتستانی قسط نمبر: ۳
قارئین کرام محدثین کے چند رحلات علم کے ذکر سے ان کی مشقتوں کا اندازہ فرما چکے ہیں ۔ تاریخ امم میں مسلمانوں کے اس عظیم کارنامہ کی مثال نہیں ملتی جس کا اعتراف غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔ واقعی کسی انسان کی پوری زندگی کے اقوال و افعال کا اس طرح جمع ہونا ایک معجزہ ہے۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے محدثین کے ہاتھوں قرآن مجید کی طرح اس کی تفسیر و تعبیر یعنی حدیث بھی محفوظ فرما دی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی انتھک کوششیں صرف سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی خاطر ہی کی جا سکتی تھیں جو کل دنیائے انسانیت کے لئے ایک کامل نمونہ اور واجب الاتباع ہو۔ ان رحلات کی داغ بیل تو اگرچہ محدثین نے ڈالی لیکن اس سے دوسرے علوم کی تحصیل کے لئے لوگ دور دراز کے سفر کرنے لگ گئے۔ خصوصاً جملہ اسلامی علوم و فنون کے لئے عموماً یہی رواج رہا کہ طالبان علم ہر قسم کے علوم کی تحصیل کے شوق میں علماء اور ان کی مجالس کا رخ کرتے رہے (اور آج بھی جبکہ علماء کی مجالس کی بجائے مستقل مدارس کا رواج چل نکلا ہے، شائقین دور دراز کے علاقوں سے ان مقامات یا مدارس کا رُخ کرتے ہیں جو اس سلسلہ میں مشہور ہوں اور اسے حصولِ علم کا ایک بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ توریٰت میں بھی حضرت موسیٰ کا یہ قول منقول ہے کہ علم بھوک اور سفر میں ہے جبکہ لوگ اسے شکم سیری اور حضر (وطن) میں تلاش کرتے ہیں ) اس لئے اب ہم ان اشخاص کا ذِکر بھی مناسب سمجھتے ہیں جنہوں نے دوسرے علوم کی تحصیل کی غرض سے سفر کئے۔
رحلہ فقہاء:
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ خیر القرون میں علماء کی اکثریت جامع العلوم ہوتی تھی اور شرعی امور میں