کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 21
یہ وہ شاعری ہے جس کی اسلام میں گنجائش رکھی گئی ہے اور وہ بھی مجاہدینِ اسلام اور عشاقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے، بازاروں ، فٹ پاتھوں اور میلوں کے ہجوم میں چبوتروں پر نہیں بلکہ دینی حرب و ضرب کی فضاؤں اور میدانوں میں ۔ زیرِ سایۂ رسول، خانۂ خدا میں یا صدّیقی، فاروقی اور حیدر مجمعوں میں ۔ گانے والا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ جیسا قدسی صفات صحابی ہو اور داد دینے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جبریلِ امیں ہوں ۔ کیا آپ اس پاک شاعری اور معصوم سے غنا و سماع سے اس ناپا شاعری، شوخ غنا اور محرک موسیقی کے لئے سندِ جواز کے طالب ہیں جو تماش بینوں ، بے خدا اور بے رسول مشٹنڈوں اور بازاری نتھوؤں پتھوؤں کے مجمعوں میں یا سینما ہال اور کلب جیسی عیاش فضاؤں میں ، نینا اور ملکہ ترنم جیسی فتنہ پرور مغنیوں کی تانوں میں کہی اور سنی جاتی ہے؟ ؎ سخن شاس نہ دلبرا خطا اینجا است خمارِ غناء و نشۂ موسیقی: شوخ غنا اور آوارہ موسیقی کے رسیا اس سادہ تفریح سے ذرا آگے بڑھ کر جب ’’رنگیلے شاہوں ‘‘ کی بستی میں جا پہنچتے ہیں اور نفس و طاغوت کی غلامی میں اپنے تئیں جکڑ لیتے ہیں تو لطف و سرور، دماغی عیاشی اور جنسی کثافتوں سے پیار ان کا مقصدِ حیات بن جاتا ہے۔ جس قدر ان کے اس کیف و خمار کی چاشنی دو آتشہ ہوتی چلی جاتی ہے، اسی قدر وہ خدا سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور نتیجۃً وہ ’’ضلال بعید‘‘ کے اس گڑھ میں جا گرتے ہیں جہاں پہنچ کر وہ نہ صرف احساسِ زیاں کھو بیٹھتے ہیں بلکہ فواحش، منکرات اور نفسِ ہوےٰ کی ضیافتِ طبع کے یہ گندے سامان ان کو ’’حسنات‘‘ محسوس ہونے لگتے ہیں ۔ ان کی فکر و عمل کی قوتیں صرف مادی مفاد اور کام و دہن کی لذت آشنائیوں کی مرہونِ منت ہو کر رہ جاتی ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے لئے کسی چیز میں کوئی دل کشی باقی نہیں رہ جاتی، کیونکہ وہ جن بے قابو تانوں اور بے خدا نغموں کی دنیا میں کھو جاتے ہیں وہاں نیکی اور شرافت کی کوئی آواز انہیں سنائی نہیں دیتی، اور نہ ہی اس سے مختلف کوئی حسین تصور ان کے ذہنوں میں سما سکتا ہے۔ ایسے لوگ مادی ترقی اور اڑانوں میں تو وہم و گمان کی حدِ پرواز سے بھی آگے نکل جاتے یا نکل سکتے ہیں لیکن ’’قبلۂ دل‘‘ کی طرف سفر تو کجا، اس کی طرف مڑ کر دیکھنا بھی انہیں نصیب نہیں ہوتا۔ (باقی آئندہ)