کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 19
جھوم رہا ہے۔
4. جس میں مظلومانہ فریاد ہو، جیسے کوئی راہِ حق میں حائل ہونے والی رکاوٹوں اور مصیبتوں سے بیساختہ تلملا اُٹھتا ہو۔
اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُو الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوْا اللهَ كَثِيْرًا وَانْتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا (پ ۱۹۔ آخر سورہ الشعراء)
’’ہاں ! (ان لوگوں کی شاعری مستثنیٰ ہے) جو اہلِ ایمان ہیں ، نیک عمل کرتے ہیں اور (اپنے اشعار میں ) کثرت سے خدا کو یاد کرتے ہیں اور مظلومی کے بعد (واجبی سا) بدلہ لیتے ہیں ۔‘‘
ایمان و عمل صالح کی رعنائیاں اور روح القدس کی تائید:
ظاہر ہے ایسی شاعری جس میں ایمان و عمل صالح جیسی دنیا و آخرت کی لطافتیں اور رعنائیاں موجود ہوں آوارہ شاعری کی حدِ پرواز سے بھی کہیں آگے ہیں ۔ ایسی شاعری اپنی ممکنہ مبالغہ آرائی کے باوجود ملاءِ اعلیٰ کی مثالی کائنات سے بھی ورے اور کہیں ورے رہتی ہے۔ یہ وہ مبارک شاعری ہے کہ جس کو روحُ القدس (جبریلِ امین) کی بھی تائید حاصل ہے، چنانچہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ (شاعرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) دشمنانِ رسول کو آپ کی حمایت میں دندان شکن جواب دیا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو کر فرمایا کرتے تھے۔
ان روح القدس لا یزال يريدك ما نا فحت عن الله ورسوله (مسلم، فضائل حسان رضی اللہ عنہ )
’’روح القدس سدا آپ كی تائيد كرتے رہیں گے، جب تک آپ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے دفاع کرتے رہیں گے۔‘‘
حضرت حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت کی یہ شاعری رجزیہ تھی جس کی تائید جبریل امین علیہ السلام نے فرمائی۔ نمونۃً آپ کے چند اشعار ہدیۂ قارئین کرام ہیں :
۱: ھَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَاَجَبْتُ عَنْهُ وَعِنْدَ اللهِ فِيْ ذَاكَ الْجَزَآء
۲: ھَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا تَقِيًّا رَسُوْلَ اللهِ شِمْحَتُهُ الْوَفَآء
۳: فَاِنَّ اَبِيْ وَوَالِدَتِيْ وَعِرْضِيْ لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِّنْكُمْ وِقَآء
۴: ثكلت بنيتي اِنْ لَّمْ تَرَوْھَا تُثِيْرُوا النَّقْعَ غَايَتُنَا كَدَآء
۵: يُبَارِيْنَ الْاَعِنَّةَ مُصْعِدَاتٍ عَلٰي اَكْتَافِنَا الْاسْلُ الظِّحَآء