کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 18
’’مقامِ معذرت‘‘ ہے۔ اسی لئے حق تعالیٰ کو شاعری کے الزام سے اپنے پیغمبر کی برأت کا التزام کرنا پڑا۔ چنانچہ فرمایا:
وَمَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِيْ لَه (پ ۲۳۔ یٰس۔ ع ۵)
’’اور ہم نے آپ کو شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ ہی شاعری آپ کے شایانِ شان ہے۔‘‘
اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ:
اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ
’’قرآن مجید( جس کو شاعری قرار دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شاعر قرار دیا گیا) تو صرف ذِکر اور قرآن مبین ہے۔‘‘
یعنی شاعری تو مدہوشی کا نام ہے جبکہ قرآنِ حکیم واضح علیمات و حقائق کا ایک مرقع اور عملی دنیا کا بہترین محرک ہے تو پھر تک بندی کو حقائق سے اور غفلت کی مستی کو جہد و عمل کی دنیا سے کیا نسبت؟
شاعر خدا پر کمندیں ڈالتا ہے اور قرآن خود ’’کمند خدا‘‘ ہے، جو اس کی گرفت میں آگیا وہ دنیا جہان کی گرفتاریوں سے چھوٹ گیا، لیکن بے چارے شاعر اپنی ہی کمندوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی تباہی و بربادی کی نذر کر دیتے ہیں ۔ آخرت کا ابھی کچھ پتہ نہیں کہ کیا بنے؟
الغرض شاعری ایسا کلام ہے جس کو غنا کی سان پر چڑھا کر مزید دو آتشہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی کلام بجائے خود ’’ہوائی دنیا‘‘ ہے اور ’’غنا‘‘ اس کے لئے وہ بال و پر ہیں جو رہی سہی کسر بھی پوری کر دیتے ہیں ۔ غنا تو ایک ایسا امرت دھارا ہے جو نثر کو بھی شاعرانہ موزونیت کا جامہ پہنا کر وہ زیرو بم عطا کر دیتا ہے جو ’’تان سینوں ‘‘ کی بے خدا تانوں کی جان ہے۔ جہاں عالم یہ ہو، وہاں غناء کے سلسلہ میں کسی حسنِ ظن سے کام لینا فریبِ نفس نہیں تو اور کیا ہے؟
اجازت کی ایک صورت:
قرآنِ حکیم نے صرف اس شاعری کی اجازت دی ہے جو:
1. مبنی بر ایمان ہو یعنی محبوب برحق کی توحید (یکتائی) کی غماز ہو۔
2. عمل صالح کی حامل ہو یعنی شمع کے پروانے کی طرح اس کے عمل میں سچی لگن اور لپک ہو۔
3. کثرتِ یاد الٰہی کی موجب ہو جس سے ایسا محسوس ہو کہ کوئی طالب اپنے مطلوبِ برحق و یکتا کی یاد میں