کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 17
وَلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاٰ مُرَنَّھُمْ
’’میں ہر حال میں ان کو بہکاؤں گا اور آرزوؤں میں ان کو غرق رکھوں گا۔‘‘
اور شیطان کا یہ پرگرام آوارہ شاعری کے ذریعے بہ کمال خوبی و سہولت تکمیل پاتا ہے۔ کیونکہ در اصل آوارہ شاعری الہاماتِ شیطان کا چربہ، شیطان کے نزول کا مہبط اور ابلیس کی دل چسپیوں کا مرکز ہوتی ہے چنانچہ قرآن مجید کی یہ آیت ہمارے اس بیان کی خوب خوب تائید کرتی ہے:
قُلْ ھَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰي مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُ تَنَزَّلُ عَلٰي كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍ يُلْقُوْنَ السَّمْعَ وَاَكْثَرُھُمْ كٰذِبُوْنَ
’’(اے پیغمبر! صلی اللہ علیہ وسلم ، ان لوگوں سے)، کہیے، کہ کیا میں تمہیں اس بات کے متعلق بتلاؤں کہ شیطان کن لوگوں پر اترا کرتے ہیں ۔ یہ (شیطان) انہیں لوگوں پر اترتے ہیں ، جو جھوٹے، جعل ساز اور بد کردار ہوتے ہیں ، کیونکہ شیطان سنی سنائی بات (ان پر) القا کر دیتے ہیں اور ان میں بہتیرے (تو نرے) جھوٹے ہوتے ہیں ۔‘‘
اور یہ جھوٹے، جعل ساز، بدکردار اور سنی سنائی باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے والے آوارہ شاعر ہی ہیں جیسا کہ ابتدائے مضمون کی (پہلی) آیت سے ظاہر ہے۔
آوارہ شاعری جہاں دروغ بے فروغ، جعل سازی وار بدکرداری پر مبنی ہے وہاں یہ انسان کی فطری صلاحیتیوں کے لئے بھی زہر ہلاہل ثابت ہوتی ہے۔ ظاہر ہے جب آدمی ہوائی قلعے تعمیر کرنے اور خیالی پلاؤ پکانے میں ہر دم مستغرق رہے گا تو وہ دنیائے عمل سے کٹ کر رہ جائے گا۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جو لوگ دنیائے شاعری کے جام و سبو میں پڑ جاتے ہیں کچھ عرصہ بعد پوستیوں کی سی مفلوج زندگی گزارنے لگتے ہیں ۔ جہاں درد و آلام ان کا مقدر بن جاتے اور دکھوں اور غموں کے پہاڑ ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور جن سے گلو خلاصی پانے کی خاطر یہ دوبارہ اسی افیون (موسیقی) کا سہارا لیتے ہیں ۔ کس قدر بے وقوف ہیں یہ لوگ جو شاعری کی محض خیالی دنیا کا سہارا لے کر اور موسیقی کی دھنوں میں سرمست رہ کر آخرت کی تلخیوں پر بھی فتح پانے کی سوچ رہے ہیں ۔!
شاری کے الزام سے براءت:
شاعری قرآنِ حکیم کے نزدیک ’’مقامِ عزیمت‘‘ نہیں ہے۔ بعض شرائط کے ساتھ صرف ایک