کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 15
مسئلۂ سماع
قسط سوم
مولانا عزیز زبیدی
غنا کے ساتھ شاعری کا بھی تعلق ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس کا بھی مختصر تعارف کرا دیا جائے۔ نیز اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ شاعری کے متعلق قرآنِ حکیم کا نظریہ کیا ہے؟
شاعری گو کتنی ہی نیچرل کیوں نہ ہو۔ اسے مبنی بر حقیقت نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اسی لئے قرآن کریم نے اس کی حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی ہے:
اَلشُّعَرَآءُ يَتَّبِعُھُمُ الْغَاونَ اَلَمْ تَرَ اَنَّھُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَّھِيْمُوْنَ وَاَنَّھُمْ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ (پ ۱۹۔ الشعراء۔ ع۱۱)
’’شاعروں کی اتباع بے راہ لوگ ہی کرتے ہیں ۔ تو نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر میدان میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہی باتیں کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے۔‘‘
بہتر ہو گا کہ یہاں علماءِ احناف کی ان چند تفاسیر کو بھی نقل کر دیا جائے جو انہوں نے اس آیت کے ضمن میں لکھی ہیں ۔ چنانچہ مولانا احمد رضا خاں کے ’’کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن‘‘ کے تفسیری حاشیہ ’’خزائن العرفان فی تفسیر القرآن‘‘ میں مولانا سید محمد نعیم الدین لکھتے ہیں :
’’ہر طرح کی جھوٹی باتیں بناتے ہیں اور ہر لغو و باطل میں منحن آرائی کرتے ہیں ، جھوٹی مدح کرتے اور جھوٹی ہجو کرتے ہیں ۔‘‘
مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’کافر لوگ پیغمبر کو کبھی ’’کاہن‘‘ بتاتے اور کبھی ’’شاعر‘‘ سو فرمایا کہ شاعری کی باتیں محض تخیلات ہوتی ہیں ۔ تحقیق سے اس کو لگاؤ نہیں ہوتا، اس لئے شاعرانہ باتوں سے بجز گرمیٔ محفل یا وقتی جوش