کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 13
گنگ رہتی ہیں بلکہ یہ لوگ خود شراب اُڑاتے ہیں اور اسی حالت میں تصویریں کھنچواتے ہیں اور ان مفاسد کے پروپیگنڈا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں ۔[1] لنڈ برگ اور فارنہیم کا حاصلِ فکر یہ ہے کہ:
’’اگرچہ مادی ترقی ایسی بلندیوں تک پہنچ گئی ہے کہ ڈیڑھ سو سال پہلے اس کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بیماری اور دبائیں اس درجہ کم ہو گئی ہیں کہ جتنی امید نہیں کی جا سکتی تھی۔ مادی طور پر لطف اندوزی کے ساز و سامان اور طور طریقے چاروں طرف اس طرح پھیلے ہوئے ہیں ۔ کہ پہلے سے ایسا اندازہ نہیں تھا۔ بایں ہمہ موجودہ زمانہ میں جہاں تک جذبات اور محسوسات کا تعلق ہے، انسانی تاریخ میں یہ غالباً سب سے زیادہ غم و اندوہ اور پریشانی و اضطراب کا دور ہے۔‘‘ [2]
ان مصنفین کا اندازہ یہ ہے کہ امریکہ میں بمشکل ۳۳ تا ۵۰ فیصدی افراد نفسیاتی روگوں سے محفوظ ہوں گے اور وہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ موجودہ کلچر نے ایسے تشویشناک حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ امریکہ کی آدھی سے زیادہ آبادی، غم و اضطراب کی تاب نہ لا کر ذہنی عوارض میں مبتلا ہو گئی ہے۔ ان حضرات کا ایک اور دلچسپ و جامع اقتباس بھی پڑھ لیجئے:
’’بہت سی بیماریوں اور کم عمری کی موتوں اور افلاس سے محفوظ ہوتے ہوئے اور بے مثال قسم کی کثرتِ دولت میں روپے سے کھیلنے کے باوجود لوگوں کی اکثریت ملول و اندوہگیں رہنے پر بضد ہے۔ یہ لوگ روز بروز اتنے غمزدہ ہوتے جا رہے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔ انسان اس سے پہلے بھی اگرچہ نفرت اور جنگ و جدل میں مبتلا رہا ہے۔ لیکن یہ شرف موجودہ زمانے کے ترقی یافتہ انسان ہی کے لئے مخصوص ہوا ہے کہ وہ تشدد اور دہشت آفرینی کا باقاعدہ ایک اخلاقی نظام بنا ڈالے۔ مارکسزم ناقابل صلح نفرت کا مبلغ ہے اور جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ان کے لئے وہ نہایت ہی آسان نسخہ تجویز کرتا ہے، یعنی موت۔ اس نسخہ کے تختۂ مشق بننے والے لاکھوں انسانوں میں صرف سرمایہ دار اور امیر لوگ ہی نہ تھے بلکہ بہ کثرت غریب کا شکار تھے۔ نیز دوسرے پیشوں کے افراد
[1] شراب اور قمار کے متعلق راقم کا مضمون ترجمان القرآن میں ملاحظہ فرمائیے۔
[2] ملاحظہ ہو: Modern Women The Lost Sex by Lundberg & Farnham.M.D. (P.22)