کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 12
جو کبھی کامیاب ہوتی ہے، کبھی ناکام۔ تخمینۂ اعداد کی رو سے سالانہ ۴،۵ لاکھ افراد خود کشی کے راستے پر گامزن ہوتے ہیں جن میں سے ۵۰ ہزار سالانہ یا روزانہ ۱۳۶ افراد خود کشی میں کامیاب رہتے ہیں ۔[1]اسی طرح انگلستان جسے دنیا کے بہت سے سوشلسٹ (جن میں کچھ پاکستانی بھی شامل ہیں ) اپنے نظریہ کے مطابق ایک اچھے نمونے کا معاشرہ سمجھتے ہیں ، وہاں کی حالت بھی کچھ زیادہ بہتر نہیں ۔ انگلینڈ اور ویلز میں ۳ تا ۴ لاکھ افراد خود کشی کی کوشش کرتے ہیں ۔[2] یہ تعداد زبانِ حال سے پکارتی ہے۔ ؎
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہیئے
اب ایک نگاہ اپنے معاشرے پر بھی ڈال لیجئے، جہاں اسلام کے اثر کی وجہ سے خود کشی کے واقعات نہ ہونے کے برابر تھے، وہاں اب جتنا جتنا اثر و نفوذ مغربی نظریات اور تہذیب کو مل رہا ہے۔ خود کشی کے واقعات کا تناسب بھی اسی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔ ۱۹۶۵ء میں خود کشی کے ۲۱۷ مقدمات درج ہوئے ان میں سے کچھ تعداد ناکام خود کشیوں کی بھی ہو گی۔
تناسب تقریباً یہ ہے کہ امریکہ میں ایک دن میں جتنے واقعات خود کشی کے ہوتے ہیں ، پاکستان میں اتنی تعداد سال بھر کی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ابھی تک اسلامی عقائد و روایات کا جو اثر باقی ہے، وہ معاشرے کے تحفظ کا ذریعہ ہے۔ ایک اور مثال لیجئے:
مسٹر پیٹر (Peter Hayes) نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ سوشلسٹ ملک فن لینڈ میں دنیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ قتل ہوتے ہیں ۔ اور ان میں سے اکثر قتل شراب کے زیرِ اثر کیے جاتے ہیں ۔[3] عبرت کی بات یہ ہے کہ ایک سوشلسٹ ملک کے وہ کار پرداز جو سرمایہ داری اور اس کے پیدا کردہ تعیشات و خرافات کے خلاف نفرت و غصہ جھاڑتے رہتے ہیں ۔ ان کا اپنا معاشرہ (خود ان سمیت) شراب اور تمباکو[4] اور جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہے اور ان بلاؤں کی تباہ کاریوں پر نہ صرف ان کی زبانیں
[1] ملاحظہ ہو۔ (Clues to Suicie by SHENEIDMAN & FARBEROW (P.187))
[2] ملاحظہ ہو: (Suicide and Attenysted Suicide by STENGEL (P. 75, 76))
[3] ملاحظہ ہو: مسٹر پیٹر کی کتاب (New Horisens in Psychiatry (P.209
[4] ڈاکٹر ڈبلیو۔ ایچ۔ اسٹوارٹ (W.H.Stewart) سرجن جنرل آف یونائیٹڈ سٹیٹس نے نوٹ کیا ہے کہ ہر سال امریکہ میں ۲ لاکھ ۵۰ ہزار افراد تمباکو نوشی کی وجہ سے کم عمری میں موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔ (AWAKE Weekly)