کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 11
ماڈرن ازم کے مغربی ناقدین:
سی، جی، یُنگ نے ایک کتاب لکھی ہے۔ ’’جدید انسان روح کی تلاش میں ‘‘ (Modern Max in Search of Soul) اس میں وہ سطحیت کی اس بیماری کا تذکرہ کرتا ہے جو ماڈرن ازم کے نام سے پائی جاتی ہے:۔
’’بہت سے لوگ اپنے آپ کو ماڈرن کہلاتے ہیں ۔ خاص طور پر وہ جو نمائشی یا نقلی ماڈرن ہیں ۔ پس صحیح قسم کا ماڈرن آدمی بالعموم ایسے لوگوں میں پایا جاتا ہے جو اپنے آپ کو قدامت پسند کہتے ہیں ۔‘‘ (ص ۲۲۹)
پھر وہ ماڈرن ازم کی اس نمائشی سطح سے نیچے اتر کر زندگی کے تلخ حقائق کو اس تاثر کے ساتھ نمایاں کرتا ہے کہ خالص مادی تحفظ و اطمینان سے بھی انسان محروم ہو گیا ہے۔ کیونکہ:
’’وہ یہ دیکھتا ہے کہ مادی ترقی کا ہر قدم ہولناک تر تباہی کے خطرے میں بہت زیادہ اضافہ کر دیتا ہے (ایٹمی ایجادات اور تباہ کن اسلحہ کو مد نظر رکھتے ہوئے) یہ تصویرِ احوال تصور کو دہشت زدہ کر دیتی ہے۔
یونگ مغربی تہذیب کی اخلاقی غارت گری کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک واقعاتی تجربہ کو بیان کرتا ہے:
’’افریقی مشن تعدددِ ازدواج کو ختم کر کے قحبہ گری کو رائج کرنے کا باعث بن گئے ہیں ۔ صرف یوگنڈا میں ۲۰ ہزار پونڈ سالانہ آتشک و سوزاک کی روک تھام کے لئے صرف ہوتے ہیں اور اخلاقی خرابیوں کی شکل میں جو اصل بربادی ہو رہی ہے وہ اس کے علاوہ ہے اور ان کارناموں کے لئے نیک دل یورپین حضرات اپنے مشنریوں کو تنخواہیں اور انعامات دیتے ہیں ۔‘‘ (ص ۶۴۲)
مادی ترقی اور روحانی خلاء:
روحانی خلاء کی وجہ سے مغرب کے مادی معاشرے میں جو شدید ذہنی بے چینی پائی جاتی ہے، اس کا اندازہ وہاں کے واقعاتِ قتل و خود کشی، کثرتِ جرائم اور نشہ آور اشیاء کے بڑھتے ہوئے استعمال سے لگایا جا سکتا ہے۔
مثلاً سرمایہ دار امریکہ کا حال یہ ہے کہ ہر منٹ میں ایک نہ ایک شخص خود کشی کی کوشش کرتا ہے