کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 10
پاتی ہے اور ان چیزوں کو اگر الگ الگ دیکھا جائے تو ہر چیز بڑی قابلِ قدر، عظیم اور مرعوب کن معلوم ہوتی ہے لیکن ان ساری سرگرمیوں ، تنظیموں اور اداروں کی اصل قدر و قیمت تہذیب کے ڈائل ہی کو دیکھ کر متعین ہو سکتی ہے۔ تہذیب کا ڈائل اس کی وہ ذہنی و اخلاقی فضا ہوتی ہے جو بتاتی ہے کہ آیا انسان حالتِ اطمینان سے بہرہ مند ہے، یا خوف و اضطراب اور حزن و ملال سے۔ کسی نظریہ یا نظامِ حیات نے اسے عظمت دی ہے یا اسے پستی میں دھکیل دیا ہے۔ تہذیب کے اس ڈائل پر اعداد و شمار کی سوئیاں آپ کو بتاتی ہیں کہ تشدّد، جرائم، جنسی انتشار، خود کشی اور نفسیاتی امراض کا تناسب بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے۔ سائنس کی رہنمائی میں مغرب نے جس مادی نظامِ حیات کی تشکیل سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کی تھی اور جس کی تکمیل اب سوشلزم کی صورت میں ہوئی ہے، اس کے پیچ پرزے بہت قیمتی اور خوبصورت ہیں اور ان پر بڑی محنتیں ہوئی ہیں ۔ لیکن ان پیچ پرزوں کا جو نتیجہ تہذیبِ جدید کے ڈائل پر سامنے آرہا ہے وہ بے حد مایوس کن ہے اور یہ نتیجہ ہی اس بات کی شہادت ہے کہ سرے سے وہ نظریات ہی باطل ہیں جس سے دورِ حاضر کی تہذیبی مشین کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس مشین کے پرزوں کی ترتیب غلط ہے اور ان کی حرکت اور ان کا عمل فاسد ہے۔ جدید دور کی نہ صرف رہنما طاقت سائنس ہے، بلکہ سائنس کو لوگوں نے ایک ’’الٰہ‘‘ کی حیثیت دے دی ہے اور سائنس کی پیدا کردہ مشینیں دیویاں اور دیوتا بن کر انسان کو محکوم بنائے ہوئے ہیں ۔ سائنس کے نظریات و قیاسات پر ان کے نت تبدیل ہونے کے باوجود ہر شخص بڑی آسانی سے ایمان لے آتا ہے۔ سائنس کے لوگوں نے امرت دھارا کی طرح ہر مرض کے دو اقرار دے لیا ہے بلکہ وہ اسے پیر جی کے تعویذ اور کسی صوفی کے چھومنتر کی طرح عقیدت کا مرکز بنائے ہوئے ہیں ۔ یہ سائنس پرستی خود ایک بڑا روگ ہے۔ یہی روگ نظریات و تصورات کے دائرے میں ماڈرن ازم یا جدیدیت کہلاتا ہے۔ نوخیز اور ترقی پذیر ممالک میں جدیدیت ایک نئے مذہب کی حیثیت میں اُٹھ رہی ہے اور نئے مذہب کی حیثیت ہی میں وہ ہر مذہب کو توڑ پھڑ دینا چاہتی ہے۔ جو بھی جدیدیت کے زیر اثر ہے وہ اسے ہانک کر سائنس کے الٰہ کی پرستش کی طرف لے جاتی ہے مگر اس جدیدیت کے جرعہ ہائے رنگیں کی تلخیوں کا جوکرب اس کے مغربی فدائیوں کو درپیش ہے اس کا پوری طرح کسی کو اندازہ نہیں ۔