کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 7
سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ’’لہو‘‘ ایک خاص اصطلاح ہے جو مختلف معانی میں قرآن و حدیث میں مستعمل ہے۔ یہ تین معانی زیادہ مشہور ہیں : 1. ہر وہ چیز جس سے استفادہ اور مناسب لطف اندوزی حاصل ہو، اس کا تعلق حیوانی زندگی اور دنیائے زیست سے ہے جو صرف اسی قدر جائز ہے کہ انسان خوشی خوشی جئے۔ اس لئے کہ یہ ایک بنیادی ضرورت بھی ہے اور فطری تقاضا بھی، لیکن اس میں افراط و تفریط مذموم ہیں کیونکہ تفریط اگر رہبانیت بن جاتی ہے تو ’’افراط‘‘ عیش کہلاتا ہے اور اسلام ان دونوں کو پسند نہیں کرتا۔ 2. ایسے امور جو بذاتِ خود مباح ہوں لیکن انسان کو نسبتاً اہم اور ارفع مقاصد کی راہ سے ہٹا دیں تو شرعاً غیر مستحسن سمجھے جاتے ہیں جیسے خطبۂ جمعہ کے دوران تجارتی قافلہ کا اعلان سن کر چند صحابہ کے علاوہ سب کا دوڑ پڑنا، جس کا ذکر مندرجہ ذیل آیت کریمہ میں ہے: وَاِذَا رَأَوْا تِجَارَةً اَوْ لَھْوَ نِ انْفَضُّوْآ اِلَيْھَا وَتَرَكُوْكَ قَائِمًا ط قُلْ قُلْ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ (پ ۲۸۔ سورۃ الجمعۃ۔ ع ۲) ’’اور اے پیغمبر! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب یہ لوگ سودا (بکتا) یا کوئی تماشا (ہوتا) دیکھتے ہیں تو آپ کو کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں ۔ ان سے کہہ دیجئے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے وہ تماشے اور سودے سے بہتر ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ تجارت اور اس سلسلہ میں کوئی ڈھنڈورہ یا اعلان وغیرہ بھی جائز امور میں داخل ہے لیکن چونکہ یہاں تجارت، خطبہ جمعہ جیسی اہم اور ارفع مقصد والی چیز کے راستے میں حائل ہوئی اس لئے یہ جائز بات بھی جائز نہ رہی۔ 3. اہم کاموں سے ہٹ کر نامناسب یا غیر مفید اور لا یعنی امور میں مشغول ہونے کو بھی ’’لہو‘‘ کہتے ہیں ۔ یہ شرعاً ممنوع ہے۔ کیونکہ ایسی صورتِ حال مکارمِ دینیہ اور اخلاق صفات کے مقابلہ میں ، ایک محاذ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں :