کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 5
یہ بات ہم عوام سے کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ تو بے ہوش ہیں ، ان سے کوئی کیا کہے؟ ہاں اگر وہ سنتے ہوں تو ہم تو اس پوزیشن میں نہیں کہ ان سے کچھ عرض کر سکیں ۔ البتہ اقبال کی زبان میں اتنا ضرور عرض کریں گے کہ:
وطن کی فکر کر ناداں ! مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
صوبہ سرحد اور بلوچستان کو مشرقی پاکستان کی راہ پر ڈالنے سے پرہیز کیا جائے، کیونکہ پہلے ہی وہ پاکستان کے ساتھ پاکستان پر احسان کر کے چل رہے ہیں اور بالکل یہی ذہنیت مشرقی پاکستان کے لیڈروں کی بھی تھی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بھارت کے سلسلہ میں صدر بھٹو جس قدر وسعتِ ظرف کا مظاہرہ کر رہے ہیں اگر اسی فراخدلی کا نمونہ ملک کے اندر بھی گوارا کر لیں تو مکمل فضا کو آسانی سے خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔
کاش کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات
عبوری آئین کی منظوری اور نفاذ سے جن خطرات کی نشاندہی کی جا رہی تھی۔ بنیادی حقوق کی معطلی کے صدارتی حکم نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے اور اب ملکی فضا مکدر ہونے لگی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ابھی دشمن تاک میں ہے۔ یار دوستوں کا کہنا ہے، تو پھر مارشل لاء کیوں اُٹھایا؟ بایں ہمہ اگر وہ اُٹھ سکتا ہے تو اندرونِ ملک ہنگامی حالت کی تلوار کا لٹکتے رہنا بھی محبِّ وطن شہریوں کی عزتِ نفس کے خلاف ہے۔ ہاں اگر ملک میں کسی ’’میر جعفر‘‘ کے ابھرنے کا اندیشہ ہے تو یقین کیجئے! اس مصیبت میں پوری قوم آپ کے ساتھ ہو گی، جہاں عوامی طاقت کی پوری حمایت حاصل ہو وہاں اکّا دکّا شرارت کا ڈر کا ہے کو؟
ملک کی ساری جماعتیں ، خود پیپلز پارٹی کے ذہین لوگ بھی بنیادی حقوق کی معطلی کے خلاف جب یک زباں ہیں تو پھر ہنگامی صورتِ حال کے باقی رکھنے پر اصرار خود پیپلز پارٹی کے مستقبل کے لئے بھی کچھ اچھی فال نہیں ہے۔ خاص کر جمہوری نظام میں یہ ایک بہت بڑی ’’گالی‘‘ تصور کی جاتی ہے۔ اس لئے ہم صدر بھٹو سے درخواست کریں گے کہ اگر ہنگامی صورتِ حال کے خاتمہ کا اعلان کر کے ملّی وحدت کو قائم کیا جا سکتا ہے تو یہ سودا کچھ مہنگا نہیں ہے۔
پشاور میں مرکزی وزیر داخلہ اور مرکزی وزیر اطلاعات نے یونیورسٹی میں قدم رنجہ فرما کر تقریر فرمائی مگر ’’زن بزن‘‘ کے زیر سایہ نیپ اور جوئی کے نقطۂ نظر سے دونوں وزراء کی تشریف آوری اور تقاریر ان کو چھیڑنے اور دھونس جمانے کے لئے کی گئی تھیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ صوبہ سرحد میں حکومت اور نیپ اپنی اپنی سیاسی طاقت کی نمائش کو ضروری سمجھنے لگے ہیں ۔ جس کا نتیجہ شاید ہی کسی کے لئے خوش آئند نکلے۔