کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 48
ازل سے جاری ہے لیکن شر جس طرح خیر پر اس دور میں غالب آرہا ہے اس کی نظیر اسلامی تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔ موجودہ معاشرہ اپنے حقوق سے نا آشنا اور فرائض سے غافل ہے۔ والدین کا احترام دلوں سے اُٹھ چکا ہے۔ عزیز و اقرباء کے معاملہ میں خون سفید ہو چکا ہے۔ پڑوسیوں ، بیماروں اور مہمانوں کے سلسلہ میں بے پرواہی اور تنگ دلی کا مظاہرہ عام ہے۔ سچائی، دیانت داری، رحإ و ہمدردی کے جذبات و احساسات مفقود ہو چکے ہیں ۔ عدل و انصاف، حق گوئی اور استقامات کی صفات سے پورا معاشرہ عاری نظر آتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اخلاقی برائیاں عام ہیں ۔ ظلم و ستم کادور دورہ ہے۔ فریب، دھوکہ بازی، رشوت، جوا، شراب نوشی، اغوا او زنا جیسے کبائر کھلم کھلا سرزد ہو رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں آج نہ صرف یہ کہ کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے بلکہ ایمان کی متاع عزیز بھی لٹتی جار ہی ہے۔ پورے کا پورا معاشرہ تباہی و ذلت کے گڑھے میں گر چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ کی اصلاح محض اور محض اسلام کے ضابطۂ حیات ہی میں ہے۔ اسلام سے ہٹ کر بس فساد ہی فساد ہے۔ ہماری ذلت و نکبت وار ہمارے زوال کا باعث بھی بس یہی ہے کہ ہم نے اسلام سے منہ موڑ لیا ہے اور ملحدانہ تہذیب و معاشرت اور سیاست و معیشت میں کھوئے جا رہے ہیں ۔ اسی پس منظر میں جناب عبد الغفار اثر ایم۔اے نے اصلاح معاشرہ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ہے۔ اس کتاب میں موجودہ معاشرہ کی برائیوں کی نشاندہی کر کے اس کا علاج اسلام کی روشنی میں بتایا گیا ہے۔ ہر مسلمان کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اس امر کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کیا تھے اور آج کیا ہو گئے ہیں ۔ مصنف کا ندازِ بیان نہایت پر شکوہ ہے۔ بعض جگہوں پر الفاظ کا شکوہ کھٹکتا بھی ہے کیونکہ قاری کا ذہن خیالات کی بجائے الفاظ میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔ بعض مقامات پر خطابت کا لہجہ اور الفاظ و خیالات کی تکرار بھی اثر پذیری میں حائل ہوتی ہے۔ یہ امر قال افسوس ہے کہ محکمہ اوقاف اس اہم کتاب کے لئے کسی اچھے کتاب کی خدمات حاصل کرنے میں قاصر رہا۔