کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 40
نچھاور کیے ہیں ۔ چنانچہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
واعتني بتصانيف الخطيب المتفرتة فجمع شتات مقاصدھا وضم اليھا من غيرھا نخب فوائدھا فاجتمع في كتابه ما تفرق في غيره فلھذا عكف الناس عليه (نزھة النظر ص ۳)
حافظ برہان الدین ابناسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
انّ كتابه ھذا احسن تصنيف فيه يعني علوم الحديث
علامہ حافظ عراتی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
فان احسن ما صنف اھل الحديث في معرفة الاصطلاح كتاب علوم الحديث لابن الصلاح (فتح المغيث)
عناية العُلماء:
علماء کرام نے جس قدد ’’علوم الحدیث‘‘ کے ساتھ عنایت و اعتناء سے کام لیا۔ اس فن کی اس سے پہلے یا بعد کی کوئی کتاب اس کی سہیم و شریک نہیں ۔ چنانچہ شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فلھذا عكف الناس عليه وساروا بسيره فلا يحصي كم ناظم له ومختصر ومستدرك عليه ومقتصر ومعارض له ومنتصر
شیخ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس اجمالی قول کی تفصیل یہ ہے کہ علوم الحدیث پر علامہ عراقی رحمہ اللہ ، علامہ زرکشی رحمہ اللہ اور خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نکت لکھے ہیں ۔ علامہ عراقی رحمہ اللہ کا نکت التقیید والایضاح لما اطلق واغلق من کتاب ابن الصلاح کے نام سے موسوم ہے اور مطبوع ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا نکت الافصاح عن نکت ابن الصلاح کے نام سے مشہور ہے اور تاحال غیر مطبوع ہے۔ پاکستان میں اس کے چند قلمی نسخے موجود ہیں ۔ ایک نسخہ حضرت پیر بدیع الدین صاحب پیر آف جھنڈا۔ سندھ، کے گراں قدر کتب خانہ میں موجود ہے اور اس کی ایک ایک کاپی ہمارے دوست مولانا ارشاد الحق صاحب فاضل (اثری) اور مولانا عبد الحمید صاحب فاضل اثری کے پاس بھی موجود ہے۔ اے کاش اللہ تعالیٰ کسی کو توفیق بخشے کہ وہ اس مبارک کتاب کو زیورِ طباعت سے آراستہ کر سکے۔
حافظ بلقینی رحمہ اللہ نے علوم الحدیث کو مختصر کیا اور کچھ اضافے بھی کیے اور اس کا نام ’’محاسن الاصطلاح و تضمین کتاب