کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 4
ہماارا معاشرتی نظام بھی انتہائی کوڑھی ہے۔ اس کے کسی بھی گوشہ میں صحت کے آثار دکھائی نہیں دیتے، اندرون ملک مختلف افراد اور مختلف طبقات میں ایسی بے رحمانہ ’’سرد جنگ‘‘ جاری ہے۔ جس نے مملکت کی بنیادیں تک ہلا ڈالی ہیں ، خود غرضی، جنسی بے راہ روی، معاشی استحصال، علاقائی منافرت، سیاسی، نسلی اور لسانی رقابت نے ملک کے اندر ایک ایسی غیر یقینی سی کیفیت پیدا کر دی ہے کہ اعتماد کے ساتھ کچھ کرنا یا کہنا محال ہو گیا ہے۔ جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو ایسے وقت خیر و برکت کی توقع کرنا عبث ہوتا ہے۔ یہی وہ موقعہ ہے جس کے متعلق حضور علیہ السلام نے فرمایا: فبطن الارض خیر لکم من ظھرھا ’’اس زندگی سے مرجانا ہی تمہارے لئے بہتر ہے۔‘‘ اگر آپ چاہتے ہیں کہ، کایا پلٹ ہو جائے تو ظاہری مرہم پٹی کے بجائے اس اندرونی کوڑھ کو پہلے دور کیجئے۔ یہاں ظاہری مرہم پٹی سے شفا نہ ہو گی۔ ہمیں تو اندرونی کوڑھ ہی کھائے جا رہا ہے۔ جس سے غفلت ہمیں تیز رفتاری سے فنا کی طرف بھگائے لئے جا رہی ہے۔ اس وقت عالمی سیاست، روس، امریکہ اور چین کے گرد گھوم رہی ہے، فی الحال بظاہر روس اپنے دونوں حریفوں پر بھاری ہونے کی کوشش میں مصروف ہے، لیکن ہمارا اندازہ ہے کہ، اس لمبی دوڑ میں روس جس طرح سر پٹ دوڑ رہا ہے بلت جلد تھک ہار جائے گا۔ چین بہت ٹھنڈا مگر سخت گیر ملک ہے، جو بالآخر دنیا پر چھائے گا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کی میعاد ختم ہونے کو ہے۔ اس عالمی سیاست میں ، عالمِ اسلام کا فی الحال اتنا ہی حصہ ہے کہ عالمی طاقتوں کا تختۂ مشق بنا ہوا ہے اور چھوٹے چھوٹے یونٹوں میں تقسیم ہو کر اپنی ملّی وحدت کو کنٹرول کرنے سے عاجز ہو گیا ہے۔ چونکہ ایک عرصہ تک اس کے زیادہ حصہ پر برطانیہ قابض ہو رہا ہے۔ اس لئے اس حصہ میں اس کی معنوی اولاد بھی پائی جاتی ہے اور دروں خانہ جن مصائب کا نزول ہو رہا ہے انہی کی معرفت ہو رہا ہے۔ لندن میں بیٹھ کر نواب بگتی نے، جن اسرار و رموز کا انکشاف کر کے، بھارت + روس کی غلامی کو قبول کر لینے کی جو سفارش کی ہے۔ اس سے اکثر دوست سراسیمہ نظر آتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر آپ ’’بگتی یا مجیب‘‘ نہیں ہیں تو پھر ؎ عرفی تو میندیش زغوغائے رقیباں آوازِ سگاں کم نکند رزقِ گدارا! پیپلز، نیپ اور جوئی کی کبڈی جاری ہے۔ ’’سانپ سے سانپ لڑے، زہر کس کو چڑھے‘‘ والی بات ہے۔ یہ تینوں ایک دوسرے کو خوب سمجھتی ہیں ۔ اس لئے یہ فکر نہیں کہ کوئی کسی کو کھا جائے گی۔ ہاں اندیشہ یہ ہے کہ بھینسوں کی لڑائی میں کھُرلی نہ ٹوٹ جائے۔