کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 39
ہر مسئلہ کے متعلق ائمہ فن کے اقوال کو اسانید سمیت ذکر کیا اور بعض نے فن کے قواعد کو ضبط تو کیا لیکن وہ احسن پیرایہ میں عبارتوں کی تنقیح و تہذیب نہ کر سکے۔ اول الذکر کی مثال علامہ خطیب بغدادی کی کتاب ’الکفایہ‘‘ اور ثانی الذکر کی مثال کے طور پر امام حاکم کی کتاب ’’مقدمہ علوم الحدیث‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن الصّلاح نے ان علمی ذخائر کا عمیق نظر سے جائز لیا، کتابوں کی عبارتوں کو اصول کے میزان میں تولا اور تعریفات و قواعد کو فہم و استنباط کی کسوٹی پر پرکھا اور سا طرح فن کے منتشر موتیوں کو احسن انداز میں سلک مرد ارید میں پرو کر ایک نئے انداز بیان کی طرح ڈالی۔ او فن میں دلچسپی رکھنے والوں کی ایک شدید ضرورت کو پورا فرما دیا۔ چنانچہ علوم الحدیث کے مقدمہ میں فرماتے ہیں : فحین کاد الباحث عن مشکله لا يلفي له كاشفا والسائل عن علمه لا يلقي به عارفا من الله الكريم تبارك و تعاليٰ علي وله الحمد ان اجمع بكتاب معرفة انواع علم الحديث، ھذا الذي باح باسراره الخفية وكشف عن مشكلاته الابية [1] اس کے بعد آپ نے ان پینسٹھ انواع کا ذِکر کیا ہے جن کے متعلق کتاب میں بحث کی ہے۔ یہ گویا کتاب کے مضامین کی فہرست ہے۔ اس طرح وہ امتیازات و خصوصیات جو آپ کی کتاب کو دیگر کتب سے ممتاز کرتی ہیں ، درج ذیل ہیں : 1. آپ نے فن کے مسائل کی تعریفات کے ضبط کا اہتمام کیا اور کچھ ایسی تعریفات کا اضافہ بھی کیا جو سابقہ ائمہ سے منقول نہ تھیں ۔ 2. سابقہ علماء کی عبارات کی تہذیب و تنقیح فرمائی اور محل نظر مقامات کی نشاندہی کی۔ 3. علومِ حدیث کے مسائل میں ائمہ حدیث سے منقول نصوص و روایات سے قواعد کا استنباط کیا۔ 4. اپنی تحقیق اور اجتہاد سے علماء فن کے اقوال پر تعاقب کیا۔ چنانچہ انہی خصوصیات کے پیشِ نظر علماء کرام نے آپ کی اس تصنیف پر تحسین و آفرین کے پھول
[1] علوم الحديث ص ۴