کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 37
عبد الصمد، شیخ موفق الدین مقدسی اور فخر الدین بن عساکر، حلبؔ میں ابو محمد بن علوان، اور حسران میں حافظ عبد القادر سے علم حاصل کیا۔ [1] علوم و فنون میں رسوخ حاصل کرنے کے بعد خلق خدا کی خدمت کے لئے آپ نے دمشق میں علوم و فنون کی نشر و اشاعت شروع کر دی اور اس کے بعد مسندِ تدریس کو رونق بخشی اور مدینہ قدس کی مشہور درسگاہ ’’الناصریہ‘‘ میں جو بادشاہ النصار صلاح الدین یوسف بن ایوب کی طرف منسوب ہے، درس دینا شروع کیا۔ ایک مدت تک یہاں فروکش رہے اور علماء و طلبہ کے ایک جم غفیر نے آپ سے فیضان حاصل کیا، بعد ازیں آپ نے پھر دمشق کو قدومِ میمنت لزوم سے نوازا اور مدرسہ روحیہ میں علم و فضل کے دریا بہانے شروع کر دیئے۔ جب بادشاہ اشرف بن عادل نے دمشق میں ایک ’’دار الحدی‘‘ کی تاسیس و تشکیل کی تو اس میں تدریس کے فرائض سر انجام دینے کے لئے ان کی نگاہِ انتخاب آپ ہی پر پڑی۔ چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ یہاں بھی علمِ حدیث کا درس دیا۔ چنانچہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ودرس بالرواحية وولی شیخة دار الحدیث ثلاث عشرۃ سنۃ [2] اس کے علاوہ ایک دو اور درس گاہوں میں بھی آپ نے تعلیم و تدریس کے فرائض سر انجام دیئے، غرضیکہ آپ جس مقام پر بھی رونق افروز مسندِ تدریس ہوئے۔ تشنگانِ علوم اس شمع فروزا کی طرف پروانوں کی طرح لپکتے چلے آئے۔ تلامذہ: جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے ایک خلقِ کثیر اور انبوہِ کبیر نے آپ سے اکتسابِ علم کیا۔ مشتے نمونہ ازخروارے چند ایک تلامذہ کے اسماء گرامی لکھنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے جو کہ درجِ ذیل ہیں : کمال الدین سلار، کمال الدین اسحاق، تقی الدین بن رزین عبد الرحمان بن نوح، شیخ تاج الدین عبد الرحمان، شیخ زین الدین فاروقی، قاضی شہاب الدین، خطیب شرف الدین
[1] تذکرۃ الحفاظ۔ ج ۴، ص ۲۱۴ [2] العبر ج ۵ ص ۱۷۸