کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 33
اے خدا! ہم تھے کیا، آج کیا ہو گئے؟ خواجہ عبد المنان رازؔ اے خدا ہم تھے کیا، آج کیا ہو گئے تجھ سے کٹ کر اسیرِ بلا ہو گئے تھا زمانہ کو ہمت کا کوہسار تھے ہے زمانہ کہ مٹی کا انبار ہیں تھا زمانہ کہ نورِ سحر تھے کبھی ہے زمانہ کہ اب ہم شبِ تار ہیں تھا زمانہ کہ دنیا تھی زیرِ نگیں ہے زمانہ کہ خود ہم نگوں سار ہیں تھا زمانہ کہ عظمت کا مینار تھے ہے زمانہ زمیں پر فقط بار ہیں تھا زمانہ کہ گلہائے رنگیں تھے ہم ہے زمانہ کہ بکھرے ہوئے خار ہیں تھا زمانہ کہ دنیا کے سالار تھے ہے زمانہ کہ اب مردِ بیمار ہیں تھا زمانہ کہ ہم تھے صائے جرس ہے زمانہ کہ کہ اب ہم گلو کار ہیں تھا زمانہ کہ غازی تھے کردار کے ہے زمانہ کہ گفتارِ بیکار ہیں تھا زمانہ اصولوں پہ دیتے تھے جاں ہے زمانہ کہ اب جنسِ بازار ہیں تھا زمانہ کہ شمشیرِ شبیر تھے ہے زمانہ منافق کی تلوار ہیں تھا زمانہ چراغِ ہدایت تھے ہم ہے زمانہ کہ من جملہ اشرار ہیں تھا زمانہ کہ غیرت کی تصویر تھے ہے زمانہ کہ عبرت کا شاہکار ہیں تھا زمانہ علم دارِ اسلام تھے ہے زمانہ خدا ہی سے بے زار ہیں