کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 32
امت میں سے ہیں ۔ ہمیں جہاد فی سبیل اللہ کرنا ہے، خدا کے دشمن ہمارے دوست نہیں ہو سکتے، ہمیں نورِ اسلام کی ان شمعوں کو فروزاں کرنا ہے جنہیں بجھانے کے لئے سارا زمانہ تلا ہوا ہے۔
اور اگر تم ایسا چاہتے ہو تو اُٹھو، آگے بڑھو، آگے بڑھو اور چھا جاؤ یا اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر جان کی بازی لگا دو۔ ربِ ذوالجلال کی قسم! اگر تم نے اپنی اصلاح کا عہد کر لیا، اگر تم نے اپنے دل میں نور کی کرنوں کو ضیا پاشیاں کرنے کی اجازت دے دی تو ارجن کے یہ سپوت، بھیم کی یہ بہادر اولادیں ، پرتاپ اور سیوا جی کی یہ نسلیں ، ’ہر ہر مہادیو، بم بم سدا شو‘‘ کے نعرے لگانے والے یہ لالے تمہارے سائے سے بھی دور بدکیں گے۔
اگر خدا وند کریم نے اکثریتوں پر اقلیتوں کو غالب کیا ہے، اگر اس نے اپنے نیک بندوں کی ہمیشہ مدد فرمائی ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ تمہیں فراموش کر دے مگر ایمان میں استحکام، گزشتہ معاصی سے توبہ اور آئندہ کے لئے اصلاح کا عزمِ صمیم شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
’’اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے دشمن کے مقابلہ میں نکل آؤ اور جب گھمسان کا رَن پڑے اور جنگ کے شعلے بھڑک اُٹھیں تو تم اس کی بھٹی میں بے خطر کود پڑو، تم ہی شرف و مرتبہ کے مستحق ہو کر (کامیاب) لوٹو گے۔‘‘
اٹھو! یہ وقت مایوسی کا نہیں ، شکست پر آنسو بہانے کا نہیں ۔ کچھ کرنے کا وقت ہے۔ قوموں کی تاریخ میں جہاں بڑی بڑی فتوحات کے کار ہائے نمایاں سنہری حروف میں لکھے نظر آتے ہیں وہاں وقتی طور پر ہزیمت اور پسپائی کے مناظر بھی نظر سے گزرتے ہیں ۔ لیکن شکستوں سے زیادہ مہلک یاس و قنوطیت ہے۔ اگر خدانخواستہ قوم میں جبن، بزدلی، کاہلی، بددلی، نا امیدی، ناکامی اور دل گرفتگی نے جڑیں پکڑ لیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ ملّت کی زندگی کا آخری دن ہو اور اس کے برعکس اگر ہم سنبھل گئے ہم نے اپنی تقصیروں کی اصلاح کر لی، توبہ و استغفار سے اپنے خالق کو منا لیا، تقویٰ، پرہیز گاری، خدا ترسی کو اپنا شعار بنایا اور اپنی صفوں میں اتحاد و تنظیم سے تقویت پیدا کر لی تو امید کامل ہے کہ خالقِ کائنات ہمیں پھر سے صدقِ صدّیقی رضی اللہ عنہ ، سطوتِ فاروقی رضی اللہ عنہ ، خشیتِ ثمانی رضی اللہ عنہ اور قوتِ حیدری رضی اللہ عنہ سے مالا مال کر دے گا۔ انشاء اللہ۔ ؎
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی