کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 30
والے مسلمانو! کیا تمہارے اسلاف نے قوتِ ایمانی کے بل بوتے پر، خدائے واحد پر توکل کرتے ہوئے اپنی قلت تعداد اور شاندار سامان حرب و ضرب سے محروم ہونے کے باوجود بھی چٹان کی طرح مضبوط، دیو ہیکل، فولادی اور آہنی انسانوں پر مشتمل، کیل کانٹے سے لیس، ناقابل شکست لشکروں کو ناکوں چنے نہیں چبوائے۔ انہیں چھٹی کا دودھ یاد نہیں دلایا۔ ذرا اسی کفر زار ہند سے پوچھو جس کے ہاتھوں آج تم محض اپنی روایات سے بغاوت کے جرم میں نالاں ہو۔ کیا اس کا چپہ چپہ تمہاری عظمتوں کا آئینہ دار نہیں ہے؟ کیا تم اپنے اس کم سن سترہ سالہ جرنیل محمد بن قاسم رحمہ اللہ کو بھول گئے جس کا راستہ راجہ داہر اور اس کے حلیف راجاؤں کی لکھو کھہا متحدہ جمعیتیں بھی روک نہ سکیں ، کیا تم غزنی کے اس مردِ آہن کو فراموش کر بیٹھے، جس نے اس سرزمین کو سترہ دفعہ اپنے پاؤں تلے روندا اور جس کی گرزِ البرز شکن کی چوٹ سے صنم کدۂ ہندوستان آج بھی تلملا رہا ہے؟ کیا احمد شاہ ابدالی کی چھوٹی چھوٹی توپوں کی آوازیں تمہارے دلوں کی دھڑکنوں کو تیز نہیں کرتیں جس نے مخالفین کے بڑے بڑے توپ خانوں کے پرخچے اڑا دیئے تھے۔ جس نے بڑے بڑے آہنی، سنگی او ناقابل شکست ایوانوں کو متزلزل کر کے رکھ دیا تھا اور جس کی شمشیرِ خار اشگاف نے بڑے بڑے جغادریوں ، رائے بہادروں ، ہلکروں ، گائیکواڑوں ، سورماؤں اور شمشیر بہادروں کو خاک و خون میں لوٹا دیا تھا۔ کیا تم ترکستان کے شیر ظہیر الدین بابر کی یلغاروں کو بھول گئے، جن کی بدولت کفر ستانِ ہند کے تخت و تاج سو سال تک کے لئے تمہارے قدموں میں آگرے اور اس عہد آفریں دَور کی یادگاریں ، دلی کالاں قلعہ، شاہی مسجد کے مینار، اور