کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 29
بہترین بازوئے شمشیر زن سے ٹکرا گئے اور اس قلتِ تعداد کے باوجود مسلمانوں نے دشمن کے دس ہزار نعشو کو خاک و خون میں لوٹا دیا؟ کیا ہمیں جنگِ یرموک کا وہ تاریخی محاربہ یاد نہیں جس میں چالیس ہزار مسلمانوں کا مقابلہ پانچ لاکھ مسلّح اور باقاعدہ تربیت یافتہ فوج سے ہوا تھا اور اس کے باوجود جب یہ ٹڈی دَل لشکر محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں سے شکست کھا کر بھاگا تو اپنے ایک لاکھ پانچ ہزار سورماؤں سے محروم ہو چکا تھا۔ کیا تاریخِ عالم ان ٹھوس حقائق کو جھٹلا سکتی ہے؟ جبکہ حلب کے مقام پر پانچ ہزار مسلمان جانبازوں نے پچیس ہزار پر مشتمل بہترین آزمودہ فوج کو شکستِ فاش دی تھی۔ جبکہ ۱۷ھ میں صرف چار ہزار مجالدینِ اسلام نے مملکتِ مصر کو تاخت و تاراج کیا تھا؟ جبکہ صرف تین ہزار مسلم نفوس نے کسریٰ کی طاقت کو خاک میں ملا دیا تھا اور مملکت ایران کے ایک لاکھ سپاہی کھیت رہے تھے۔ اور جبکہ ۴۷۴ھ میں فلسطین میں صرف چند ہزار مجاہدینِ اسلام، مخالفین کے ستر لاکھ کے قشونِ قاہرہ سے ٹکرا گئے تھے اور ان کے دس لاکھ سپوتوں کو قتل کر کے ان کو ایسی ذلّت آمیز شکست سے دو چار کر دیا تھا کہ تاریخ میں اب تک یاد گار ہے۔ تاریخ اٹھاؤ اور دیکھو، کیا مغرب کی وادیوں میں غرناطہ و سپین کے مرغزاروں کو روند ڈالنے والے یہی قلیل التعداد مجاہدینِ اسلام نہ تھے؟ کیا براعظم افریقہ کے چپہ چپہ پر اسلام کا پھریرا لہرانے والا یہی قلیل گروہ نہ تھا؟ کیا دنیائے کنارِ اندلس پر طارق رحمہ اللہ کا عملِ سفینہ سوخت نہیں دیکھا، جہاں قلیل التعداد مجاہدوں نے کفر کی صفیں کی صفیں الٹ کر رکھ دیں اور صلیب کے پرستاروں کے تیجانِ ملوکانہ ان کے قدموں میں آگرے؟ اپنے خدائے برتر کو بھول کر، اپنی قوتِ ایمانی کو خیر باد کہہ کر کثرت و قلت کے چکر میں پڑنے