کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 28
دور نے کفر کے لا تعداد قشونِ قاہرہ کو للکارا او ہر مرتبہ فتح و کامرانی نے اسلامیوں کے قدم چومے۔ چودہ صدیاں قبل جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اصنام پرستوں کو خدائے واحد و قہار کی طرف بلایا تو کس طرح کفر کے ایوانوں میں زلزلے آگئے اور کس طرح کفار کا ہر بچہ بوڑھا غیظ و غضب سے دیوانہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در پے آزار ہو گیا۔ لیکن اسلام کا یہ مختصر سا قافلہ راستے کی تمام صعوبتوں کو برداشت کرتا ہوا، ہجرت کی سختیاں سہتا ہوا، بدر و حنین کی منزلیں طے کرتا ہوا، خندق (احزاب) کے جمعرکے سر کرتا ہوا بالآخر مکہ کی عظیم الشان فتح سے مشرف ہو کر اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں ہو گیا۔ اس قافلے میں غریب بھی تھے اور ننگے بھی، بھوکے بھی تھے اور پیاسے بھی، جن کے پاس نہ تلواریں تھیں اور نہ سواری کے جانور۔ ان کے پاس سامانِ حرب و ضرب مفقود تھا لیکن ان کی قوتِ ایمانی، ان کی زبانوں سے نکلی ہوئی لا الٰہ الا اللہ کی صدائے دل آویز آہستہ آہستہ دلوں میں گھر کرتی چلی گئی، یہ چلتے رہے اور بڑھتے رہے حتیٰ کہ کفر و استبداد کی کفر سامانیاں اور لن ترانیاں ظلم و ستم کی یلغاریں کبر و نخوت کے مجسم لشکر اپنے شاندار سامانِ حرب و ضرب کے باوجود مسلمانوں کے راستے میں کہیں بھی نہ ٹھہر سکے۔ اس کے بعد کیا انہی مٹھی بھر مجاہدوں نے قیصر کی قابؤں کو چاک چاک نہیں کر ڈالا، جن کی افواجِ جابرہ، جن کے مست ہاتھیوں اور جن کے قلاع و سپاہ اور سامانِ حرب و رسد کا کچھ شمار ہی نہ تھا؟ کیا اسی قلّت نے کسریٰ کے محلات کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجا دی؟ اور آتشکدۂ ایران کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹھنڈا نہیں کر دیا تھا؟ شام و ایران تو کیا مشرق و مغرب کے ڈانڈے ملانے والے کیا یہی قلیل التعداد اہلِ ایمان نہ تھے جو ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے آفاق میں پھیل گئے تھے؟ کیا ہم حق و باطل کی اس آویزش کو بھول سکتے ہیں جو تبوک کے میدان میں ہوئی جبکہ صرف دو ہزار غیر تربیت یافتہ مسلمانوں نے اپنے سے چار گنی زیادہ مسلح طاقت کو میدانِ جنگ میں بائیس سو تڑپتی ہوئی لاشیں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا؟ کیا ہم جنگِ فلسطین کا وہ معرکہ فراموش کر سکتے ہیں جس میں صرف ۹ ہزار مسلمان ایک لاکھ غیر مسلم