کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 27
ابراہیم علیہ السلام اور ان کے مٹھی بھر سپاہیوں نے اس سر کش جماعت کا خلیل نامی جگہ تک (جواردن میں آج بھی مشہور ہے) تعاقب کیا اور انہیں زیر کر کے لوط علیہ السلام کو ان سے چھڑا لیا اور ان کے فوجی قید کر لئے اور کافی سامانِ غنیمت بھی حاصل کیا۔
تاریخ نے حضرت سلیمان علیہ السلام اور ذوالقرنین رحمہ اللہ کی حکومتیں بھی دیکھیں اور ان سے پہلے طالوت رحمہ اللہ اور داؤد علیہ السلام کا جالوت اور اس کے لشکر کے ساتھ مقابلہ بھی اپنے صفحات میں محفوظ کیا اور پھر جس طرح طالوت کی قلیل تعداد جمعیت نے جالوت کے ٹڈی دل لشکروں کو نیست و نابود کیا، یہ واقعہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ [1]
پھر جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خلاف ساری نمرودی طاقتیں متحد ہو گیں اور آپ کو آگ کے جلتے ہوئے عظیم الاؤ میں پھینک دیا گیا، تو یہی آتشکدہ اللہ کی نصرت و حمایت کے با وصف ان کے لئے امن و سلامتی کا گہوارہ بن گیا۔
فرعون نے بنی اسرائیل پر بہت مظالم ڈھائے لیکن جب اللہ کی نصرت و حمایت بنی اسرائیل کے شاملِ حال ہوئی اور وہ موسیٰ علیہ السلام کی معیّت میں بحیرۂ قلزم کی طرف بڑھے تو دریا کی موجوں نے بھی انہیں راستہ دیا۔ لیکن بعد میں یہی موجیں فرعون اور اس کے لشکروں کے لئے موت کا پیغام ثابت ہوئیں۔
ابرہہ اور اس کے خوانخوار مست ہاتھیوں کا کعبۃ اللہ پر حملہ بھی اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہے۔ یہاں تو معاملہ کثرت و قلّت سے بھی گزر گیا تھا۔ کہاں حملہ آور بدمست ہاتھیوں کے غول کے غول اور کہاں دوسری طرف محافظینِ کعبہ ناپید، لیکن اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَھُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ کا سوالیہ اندازِ تخاطب قدرت کی غیبی نصرتوں کی آج بھی نشان دہی کر رہا ہے۔
اب ذرا عہدِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو تازہ کیجئے، اور تاریخ کے اوراق کھنگالیے کہ کس طرح اسلام کے ہر
[1] اسی موقعہ کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس اصول کا ذکر فرمایا ہے: کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةً بِاِذْنِ اللهِ