کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 26
اللّٰھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجدّ منک الجد ’’یعنی اے اللہ! تو جو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جس چیز کو تو روک دے اس کا کوئی عطا کرنے والا نہیں ۔‘‘ یہی جذبات و احساسات اسلام کی اساس ہیں ۔ مسلمان کی مکمل زندگی اسی محور کے گرد گھومتی ہے۔ صدرِ اوّل سے لے کر آج تک جہاں کہیں اور جب کبھی اسلام اور کفر کے درمیان کسی بھی رنگ میں مقابلہ ہوا ہے کسی بھی مسلمان کے دل میں کفر سے کسی قسم کا خوف و ہراس اور دل گرفتگی یا مغلوبیت کا خطرہ تک پیدا نہیں ہوا۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوا ہے کہ مغلوبیت کی صورت میں ایک مسلمان جان پر کھیل جائے۔ لیکن یہ تو عین فائز المرامی اور شہادت کے مقامِ اعلیٰ پر سرفرازی ہے۔ ؎ شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی! اور جب مومن اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو کائنات کی ساری قوتیں اس کی امداد کے لئے میدانِ عمل میں آجاتی ہیں ۔ قرآن کریم نے بار بار مومنین کی اعانت کے سلسلہ میں ایسے محیرّ العقول واقعات کا ذکر کر کے مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی ہے۔ جنگوں کی تاریخ میں سب سے پہلی جنگ حضرت شیث علیہ السلام اور قابیل اور اولادِ قابیل کے درمیان لڑی گئی۔ جس میں ظاہراً قابیل کا پلّہ بھاری تھا اور شیث علیہ السلام کے ساتھ معدودے چند لوگ تھے۔ لیکن قابیل کی بھاری جمعیّت نے ان مٹھی بھر مسلمانوں کے مقابلہ میں بُری طرح ہزیمت اُٹھائی۔ اس کے بعد آثارِ قدیمہ نے قومِ عاد اور ہود علیہ السلام کی جنگ محفوظ کی ہے جس کی طرف قرآنِ مجید نے بھی اشارہ کیا ہے۔ اس جنگ میں بھی حق پرستوں کا پلّہ بھاری رہا اور منکرینِ حق کو ایسی شکستِ فاش ہوئی کہ تاریخ کے صفحات سے ان کا نام تک ملیا میٹ کر دیا گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب ایک سرکش حکومت نے حضرت لوط علیہ السلام کو قید کر لیا تو حضرت