کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 25
(سو اب مسلمان اپنے سے دوگنے لشکر کا مقابلہ کریں ) یعی اگر ۱۰۰ مسلمان ہوں تو دو سو کفار کا اور اگر ایک ہزار کی تعداد میں ہوں تو دو ہزار کافروں کا مقابلہ کریں ۔ اور اس قلتِ تعداد کے باوجود مسلمان اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے۔ کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کا حامی ہے۔
مندرجہ بالا آیات سے علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کی تعداد کی نسبت کفار کی تعداد دوگنی سے زیادہ یعنی سہ چند یا چار گنی ہو تو مسلمانوں پر ان سے قتال فرض نہیں ہے۔ لیکن یہ اجازت صرف اس صورت میں ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار سے کم ہو۔ ورنہ اگر مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزاریا اس سے زیادہ ہو جائے یعنی مسلمان اتنی کثرت میں ہوں کہ ایک علیحدہ قومی و ملکی حیثیت اختیار کر جائیں تو پھر خواہ کفار کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ ہتھیار پھینک دیں یا مقابلہ سے جی چرائیں ۔ بقولِ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :
لَنْ یُّغْلَبُوْا اِثْنَا عَشَرَ اَلْفًا مِّنْ قِلَّةٍ [1]
’’یعنی بارہ ہزار (مسلمان فوجی) بوجہ قلت شکست نہیں کھا سکتے۔‘‘
اگر ہم اس کلیہ کو تسلیم کر لیں کہ ہر قسم کی طاقت کا سر چشمہ عددی قوت یا مادی وسائل نہیں بلکہ خود خالقِ کائنات کی ذاتِ اُقدس اور اس کی مشیت ہے تو پھر کثرت و قلّت کا مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے اور ایمانیات میں یہ ایسا عقیدہ ہے جس کا ہم ہر روز پانچوں نمازوں کے بعد اقرار کرتے ہیں ۔
[1] یہ حدیث مسند احمد، ابو داؤد، ترمذی، دارمی اور مستدرک حاکم میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ امام حاکم اس حدیث کے متعلق یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ یہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی شرط پر ہے۔ جبکہ امام ذہبی نے ان کے اس دعویٰ پر کوئی گرفت نہیں کی بلکہ توثیق کی ہے۔ کوئی امام حاکم کے تصحیح میں متساہل ہونے کا خیال نہ کرے۔ کیونکہ جب ذہبی کی تائید مل جائے تو وہ حدیث صحیح شمار ہوتی ہے۔
ہاں اس حدیث کی بعض روایات میں یہ اضافہ ضرور ہے کہ ’’اگر وہ (مسلمان) صبر کریں اور تقویٰ اختیار کریں تو پھر بوجہ قلت انہیں شکست نہیں ہو سکتی۔‘‘