کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 24
پاک بھارت جنگ ۷۱ء کے روح فرسا اور جگر فگار نتائج کے بعد افواج کی کثرت، و قلّت کا مسئلہ بعض مسلمانوں کے طبائع میں خلجان پیدا کرتا ہے۔ حالانکہ یہ چیز بھی شیطانی وساوس میں سے ایک ہے۔ کیونکہ جنگ میں فتح و کامرانی کا انحصار کبھی بھی افواج کی قلّت و کثرت پر نہیں رہا، قرآنِ مجید شاہد ہے: کَمْ مِّنْ فِئةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئةً كَثِيْرَةً بِاِذْنِ اللهِ (البقرة: ۲۴۹) ’’کہتے ہی گروہ ایسے ہیں جو باوجود اپنی قلتِ تعداد کے، خداوندِ قدوس کے حکم سے بڑے بڑے گروہوں پر غالب آئے۔‘‘ دوسری جگہ بطورِ وعدہ ارشاد ہے: وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (آل عمران: ۱۳۹) ’’نہ بزدلی دکھاؤ اور نہ غم کرو، تمہی غالب ہو اگر تم ایماندار ہو۔‘‘ اس آیت میں مسلمانوں کی قلت کے باوجود انہیں فتح و کامرانی کا وعدہ دیا گیا ہے اور اسے صرف شرطِ ایمانی کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ سورۂ انفال میں دس گنا زیادہ طاقت پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایا پھر فرمایا کہ تمہاری کمزوری دیکھتے ہوئے اگرچہ تمہارے لئے قتال کا حکم صرف دوگنی طاقت سے ہے جس پر تم ضرور غالب آؤ گے مگر شرط دونوں صورتوں میں صبرِ ایمانی ہے۔ ارشاد ہے: اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَھُوْنَ اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا فَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ يَّغْلِبُوْا اَلْفَيْنِ بِاِذْنِ اللهِ وَاللهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ (الانفال: ۶۵، ۶۶) مسلمانو! (اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے مجاہد ہوں تو دو سو کفار پر بھاری ہوں گے۔ اور اگر تمہاری تعداد ایک سو ہے تو تم ایک ہزار کافروں پر غالب آؤ گے۔ اس لئے کہ وہ (کفّار) بے سمجھ ہیں ۔) اب اللہ نے تمہاری کمزوری جانچتے ہوئے تخفیف فرما دی۔