کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 23
جہادِ اسلامی میں قلت و کثرت کا فلسفہ مولانا عبد الغفار اثر (ایم۔اے) مولانا عبد السلام کیلانی دسمبر ۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ کا المیہ وقوع پذیر ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ مسلمان جیسی عظیم، فاتح شرق و غرب اور توحید پرست قوم کے لئے یہ واقعہ ہائلہ، حادثہ جانکاہ ہے۔ لیکن جب کوئی اس کے حقیقی اسباب و علل پر غور کریگا تو اسے ماننا پڑے گا کہ یہ در حقیقت کسی مسلمان کی شکست نہیں بلکہ یہ اسلام دشمن اور کفر پرست طاقتوں کی نئی اور پرانی چالوں پھر دین فروشوں ، ملت کے غداروں اور طاغوتی ایجنٹوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے جن کی ملی بھگت سے آج مسلمان جہاں دنیاوی جاہ و جلال اور مادی طاقت سے محروم ہو چکا ہے۔ وہاں روز بروز دینی اور روحانی اقدار سے بھی تہی دامن ہو رہا ہے۔ ماضی میں جو اسباب سقوطِ بغداد کا باعث ہوئے او جس طرح اپنوں ہی کی ضمیر فروشی اور غداری غیر منقسم ہندوستان میں بھی سلطان ٹیپو اور سید اسماعیل شہید رحمہ اللہ جیسے اولو العزم بہادروں اور صاحب ایمان مجاہدوں کی مادی شکست پر منتج ہوئی۔ وہی ہماری ذلت و خواری کا موجب بنی، دُور کیا جائے احدؔ و حنینؔ کے کفر و اسلام کے معرکوں میں محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلامی لشکروں میں بنفس نفیس موجودگی کے باوجود چند مسلمان ساتھیوں کی ایمان و توحید کے منافی غلطیوں کا خمیازہ پورے لشکروں کو بھگتا پڑا تو ہماری نام کی مسلمانی اور بے روح اسلامیت کب تک ہمارے لئے کامرانی و فائز المرامی کی ضمانت دے سکتی تھی؟ ۱۹۶۵ء میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے اسلام کی لاج رکھ لی تھی لیکن اس کے بعد تو ہم نے اس نام کے خلاف بھی نعرے لگائے اور بر سر عام قرآن کی بے حرمتی کی اور مجموعی طور پر ہماری بد کرداریوں ، بد اعمالیوں کو مزید فروغ حاصل ہوا اور ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اخلاق و ایمان کا جنازہ اُٹھا کر انفرادی و اجتماعی بے راہ روی اختیار کر لی اور توحید و رسالت کو جدّت اور ترقی میں رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس کی رہی سہی اہمیت بھی ختم کر دی حتیٰ کہ عین حالتِ جنگ میں اگر نعرے بھی لگے تو واحدِ قہار کے ساتھ ان بزرگوں اور اولیاء اللہ کے جو بزعمِ خویش ۶۵ء کی جنگ میں ہمیں فتح سے ہمکنار کر گئے تھے۔ (العیاذ باللہ) مغربی پاکستان ہمارے ایمان و عمل کا اب صرف ایک آخری امتحان باقی رہ گیا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم اب بھی فتح و نصرت کے وعدۂ ایمانی کا احساس کرتے ہوئے اپنی حالتِ زار کو درست کر لیں اور گزشتہ لغزشوں سے معافی مانگیں ۔ وعدۂ ربانی اب بھی قرآنی صفحات کی زینت ہے۔ (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِیْنَ) قلت و کثرت کی بجائے ہمیشہ سے مسلمان قوم کی فتح و عظمت کا یہی راز رہا ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں اسلامی تاریخ کے معرکہ ہائے حق و باطل کے اجمالی ذکر سے کامیابی کے اسی فلسفہ کا اثبات مقصود ہے۔ (ادارہ)