کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 21
آمل، اہواز، بطام، خسر و جرو، جرجان، آمد، استر آباد، بوسنج، بصرہ، دینور، رَی، سرخس، شیراز، قزدین، کوفہ۔‘‘ حافظ ابو عبد اللہ اصفہانی ایک مرتبہ اپنے مقاماتِ رحلہ کی تفصیل بیان کرنے لگے کہ میں حدیث حاصل کرنے گیا تو وہ طوس، ہرات، بلخ بخارا، سمر قند، کرمان، نیشا پور، جرجان، غرض اسی طرح نام لیتے گئے یہاں تک کہ ایک سو بیس مقامات کے نام لے ڈالے۔ امام عزا لدین مقدسی چودہ برس کی عمر میں تحصیل علم کے واسطے بغداد پہنچے۔ حافظ ابو الخطاب نے تحصیلِ علم کی خاطر اول تمام ملکِ سپین میں سفر کیا۔ پھر وہاں سے فارغ ہو کر مراکش (مراکو) آئے۔ مراکش اور دوسرے ممالک حبش کی سیاحت کے بد مصر پہنچے اور مصر کے بعد شام، عراق، عرب، عراق عجم اور خراسان کا سفر کیا اور اس طرح تین براعطم ان کے ملک پیما قدموں کے نیچے سے گزرے۔ امام جرح و تعدیل ابو ذرعہ کہتے ہیں کہ: ’’میں دوسری بار اپنے وطن رَے سے ۲۲۷ھ میں نکلا اور ۲۳۲ھ کی ابتداء میں واپس آیا۔ میں نے اپنے سفر کا آغاز حج سے کیا۔ پھر مصر گیا۔ وہاں پندرہ ماہ ٹھہرا۔ مصر جا کر شروع شروع میں میرا خیال ہوا کہ یہاں میں تھوڑی دیر ٹھہروں گا۔ لیکن جب میں نے وہاں علم کی بہتات دیکھی تو وہیں جا کر اس کا بھی میرے ذہن میں خیال پیدا ہو گیا۔ اس کے لئے میں نے اپنے دو قیمتی کپڑے بیچے تو ان سے ساٹھ درہم وصول ہوئے۔ میں نے ایک شافعی عالم کو امام شافعی کی کتابیں لکھنے کے لئے کہا اور اسیّ درہم میں بات طے ہو گئی۔ دس درہم کا میں نے اسے کاغذ خرید دیا جس پر اس نے امام شافعی کی کئی کتابیں لکھ دیں ۔ پھر میں جزیرہ چلا گیا۔ کچھ دیر وہاں ٹھہرا۔ پھر ۲۳۰ھ کے آخر میں بغداد واپس آگیا۔ پھر کوفہ آیا۔ وہاں سے بصرہ گیا اور امام شیبان رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ علی رحمہ اللہ سے علم حاصل کیا۔ ادھر محمد بن عوف رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم نے ۲۳۰ھ