کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 20
صرف درست ہوئی بلکہ اتنی تیز ہو گئی کہ چاندنی راتوں میں تاریخِ کبیر کا مسودہ تیار کرتے رہے۔ امام موصوف کی وفات بھی دورانِ سفر ہوئی۔ امام نسوی رحمہ اللہ نے تیس برس سفر میں بسر کئے، شیخ الاسلام بقی بن مخلد رحمہ اللہ نے دور دراز کے سفر کر کے ۲۸۰ شیوخ سے روایت کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ جس کے پسا گیا ہوں ، پیادہ پا گیا ہوں ۔ محدثِ اندلس (سپین) ابن جیون رحمہ اللہ نے اخذِ علم کے لئے عراق، حجاز اور یمن تک کا سفر کیا۔ اس سفر سے ظاہر ہے کہ انہوں نے بحر و بر کو پاٹا ہو گا۔ ابن المقری فرماتے ہیں کہ میں نے صرف ایک نسخہ ’’ابن فضالہ‘‘ کی خاطر ستر منزل[1] کا سفر کیا۔ جس نسخہ کی ظاہری حیثیت یہ ہے کہ اگر کسی نانبائی کو دیا جائے تو اس کے بدلے میں وہ ایک روٹی بھی دینا گوارا نہ کرے گا۔ علاوہ ازیں امام موصوف نے چار مرتبہ مشرق اور مغرب (افریقہ و سپین) کا سفر کیا اور دس دفعہ بیت المقدس گئے۔ حافظ ابن مفرح رحمہ اللہ نے سعید بن اعرابی رحمہ اللہ سے حدیث کی سماعت مکہ مکرمہ میں کی، ابن راشد رحمہ اللہ سے دمشق میں ، قاسم بن اصبغ سے قرطبہ میں ابن سلیمان سے طرابلس میں ، محمد سے مصر میں اور دیگر مشائخ سے جدہ، صناء اور بیت المقدس میں ، یہ مقامات اگر نقشے میں دیکھیں تو تین براعظموں میں بکھرے ہوئے ملیں گے۔ حافظ الحدیث ابن طاہر مقدسی نے چمنستانِ محمدی کے سدا بہار پھولوں کو حاصل کرنے اور گوہرِ آبدار کی جستجو و تلاش میں جتنے سفر کیے ہیں ، سب پیادہ پا کیے ہیں اور نہ صرف سواری سے مستغنی رہے بلکہ کتابوں کا بوجھ بھی اپنے سر پر رکھتے۔ یہ با مشقت پیدل سفر کبھی کبھی یہ رنگ لاتا کہ پیشاب میں خون آنے لگتا۔ اسی جفا کشی سے جو حافظ ممدوح نے کی، اس میں حسب ذیل مقامات منجملہ اور مقاموں کے یہ تھے۔ ’’بغداد، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، تنیّس (واقع بحیرہ روم) مشق، حلب، جزیرہ، اصفہان، نیشا پور، ہرات، رملہ، لوقان، مدینہ طیبہ، نہاوند، ہمدان، واسط، سادہ، اسد آباد، اسفرائن،
[1] پیادہ منزل عموماً ۱۲ عربی میل (۱۲ کوس) ہوتی ہے۔