کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 19
مفسرین کے چند ایک رحلاتِ علم کی طرف آئیے:
مقدمۃ الجرح والتعدیل میں امام ابن ابی حاتم نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کی علم دوستی اور پرہیز گاری کے دو سفری واقعات ذکر کیے ہیں ۔ مولانا حبیب الرحمٰن شیروانی رحمہ اللہ نے ’’علمائے سلف و نابینا علماء‘‘ میں امام دارمی کا طلبِ حدیث کے لئے حرمین شریفین، خراسان، عراق، شام اور مصر کا سفر کرنا بیان کیا ہے۔ مولانا عبد السلام مبارک پوری نے اپنی تصنیف ’’سیرۃ البخاری‘‘ میں امام بخاری رحمہ اللہ کے علمی سفروں کا تفصیل سے ذِکر کیا ہے انہی سفروں کا یہ اثر تھا کہ آپ کی حدیث دانی اور قوتِ حافظہ کو دیکھ کر علماء فرمایا کرتے تے:
انما ھو ایة من اٰيات الله تمشي علي وجه الارض ما خلق الا للحديث
یعنی بخاری رحمہ اللہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے جو چلتی پھرتی نظر آتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے حدیث ہی کے لئے پیدا کیا ہے۔‘‘
انہی کے نام سے بخاری کی شہرت کو چار چاند لگے۔ کسی نے کہا ہے ؎
سکہ کہ در یثرب و بطحا زدند
نوبت آخر بخارا زدند
اسی بخارا کی علمی شہرت نے بعد ازاں بو علی سینا جیسے فلسفیوں کو متعارف کرایا جسے طب و منطق کا معلمِ ثانی کہا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے چودہ برس کی عمر ہی میں علم کے لئے سیاحت شروع کر دی تھی اور بخارا سے لے کر مصر تک سارے ممالک اس امام عالی مقام کی سفری فہرست میں داخل ہیں ۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ’’میں چار دفعہ بصرہ گیا اور علم نہیں کہ کوفہ و بغداد کے کتنی بار چکر لگائے۔‘‘ جہاں امام احمد بن حنبل اور محمد بن عیسیٰ صباخ جیسے یکتا زمانہ سے کسب فیض کیا۔ تلاشِ علم میں عرصہ تک شام و مصر اور جزیرہ، خراسان، میں مرد، بلخ، ہرات، جبال اور نیشا پور کی چھان مارتے رہے حتیٰ کہ مدینہ منورہ آن کر اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’الجامع الصحیح‘‘ تیار کی۔ سفری مشقتوں کا یہ عالم تھا کہ دوران سفر دوسری دفعہ نابینا ہو گئے پھر کسی طبیب کے مشورہ سے خطمی اور مصبر کا استعمال کیا تو بینائی لوٹ آئی۔ بچپن میں بھی ایک دفعہ آپ کی بینائی جاتی رہی تھی لیکن عابدہ صالحہ ماں کی دعا سے درست ہو گئی تھی۔ اب کی مرتبہ برکتِ حدیث کی بدولت نہ